مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مخالفت اور اس کا انسانی انداز||ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں حامد میر سے اتنا ہی شناسا ہوں جتنا کوئی بھی اور ٹی وی ناظر اور اخبار کے ادارتی صفحے کا قاری۔ میں اس کی شرارتی طبیعت سے جس قدر حظ اٹھاتا ہوں، اتنا ہی اس کی جرات اور ہٹ دھرمی کی قدر بھی کرتا ہوں۔ مجھے اس کے بہت سے موقفات سے اتفاق نہیں ہوتا لیکن ہے تو وہ ایک بیباک صحافی ہی، اوپر سے وارث میر جیسے استاد اور صحافی کا فرزند چنانچہ وہ مجھے عزیز ہے اسی طرح جس طرح کوئی بھی اور برادر صحافی۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی ہاں کسی بھی عمل کا ایک ہی انداز انسانی ہوا کرتا ہے، دوسرا کوئی بھی طریقہ غیر انسانی کہلائے گا جسے وحشت، درندگی، کمینگی، خبث، جھنجھلاہٹ، منتقم مزاجی یا چاہے کچھ بھی کہہ لیں، اگرچہ یہ سب کچھ انسانوں سے ہی متعلق ہے لیکن اسے غیر انسانی کہنے کے علاوہ اس لیے کوئی راستہ باقی نہیں بچ رہتا کیونکہ ہر ردعمل کا ایک انسانی اور متمدن انداز موجود ہے۔
ایک قول سوشل میڈیا پہ دیکھنے میں آتا ہے،”دین میں اگر جبر ہوتا تو رسول صلعم پہ کچرا پھینکنے والی عورت سب سے پہلے ذبح ہوتی”۔ اس میں لفظ ذبح ویسے ہی قابل تنقید ہے، قتل کر دی جاتی سے کام چل سکتا تھا لیکن چونکہ اب حلال جانوروں کی طرح انسانوں کی گردنوں پہ بھی چھری چلانے کا چلن ہو چکا ہے، اس لیے اس روایت کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ قول اصل میں دین میں جبر سے متعلق اتنا زیادہ نہیں جتنا کسی بھی سلسلے میں جبر سے متعلق ہے کیونکہ بشمول اسلام کے تمام ادیان، مذاہب، فسلفوں اور مسالک و مکاتیب کی اصل اساس رواداری، صبر، تحمل اور عفو ہی ہے۔ اگر کوئی اس سے صرف نظر کرتا ہے تو وہ غیر انسانی عمل کا مرتکب ہوتا ہے۔
صحافی و اینکر پرسن حامد میر پہ قاتلانہ حملہ ہوا تو لوگوں نے عجیب و غریب باتیں کرنا شروع کر دیں۔ گویا کہ اس نے اپنے آپ پر خود یا اس کے میڈیا ہاؤس نے اس پر حملہ کروا دیا ہے۔ پہلی بات تو ویسے بھی دل لگتی نہیں کیونکہ اگر کوئی شاطر خود پہ حملہ کرواتا بھی ہے تو وہ پسلیوں اور پیڑو میں خود کو گولیاں نہیں مرواتا۔ اس کے لباس پر جو بظاہر ہسپتال کا ایپرن لگتا تھا، خون کے دھبوں کی غیر موجودگی کا شکوہ کیا گیا۔ کیا آغا خان ہسپتال کے جراح ڈاکٹر بھی اس "ڈرامے” میں شریک تھے؟ نہ تو آغا خان پسپتال اے ایف آئی سی ہے اور نہ حامد میر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف۔
میں حامد میر سے اتنا ہی شناسا ہوں جتنا کوئی بھی اور ٹی وی ناظر اور اخبار کے ادارتی صفحے کا قاری۔ میں اس کی شرارتی طبیعت سے جس قدر حظ اٹھاتا ہوں، اتنا ہی اس کی جرات اور ہٹ دھرمی کی قدر بھی کرتا ہوں۔ مجھے اس کے بہت سے موقفات سے اتفاق نہیں ہوتا لیکن ہے تو وہ ایک بیباک صحافی ہی، اوپر سے وارث میر جیسے استاد اور صحافی کا فرزند چنانچہ وہ مجھے عزیز ہے اسی طرح جس طرح کوئی بھی اور برادر صحافی۔
عامر میر کا لگایا ہوا الزام چاہے غلط ہو لیکن سلیم شہزاد اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس سب کے بارے میں آج بھی شکوک موجود ہیں۔ بلوچستان میں لاشوں کا ملنا اب بھی معمہ ہے۔ گمشدہ افراد کی تو بات ہی کیا کرنی۔ قومی مفادات کا پیمانہ وہی ہے جو فوج طے کر دیتی ہے۔ میں بھی فوج میں رہا ہوں۔ دنیا بھر میں فوج کی تربیت اور سوچ کا انداز خاص طریقے پر مرتب کیا جاتا ہے لیکن فوج کی سوچ کو قومی مفادات کی تشریح پر حاوی نہیں ہونے دیا جاتا۔ فوج کو دشمنوں کے ساتھ جنگ بھی کرنی ہوتی ہے لیکن چونکہ جنگ انسانی رویہ ہے ہی نہیں بلکہ جانداروں کا رویہ ہے جہاں بقا کی خاطر طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ملک بہت زیادہ متمدن ہو جائے تو اسے فوج کی ضرورت رہتی ہی نہیں لیکن منسلک مفادات والے حلقے ملکوں کو اس قدر متمدن ہونے ہی نہیں دیتے کیونکہ اس طرح ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ جنگیں یا جنگوں کا خوف ایک کمرشل انڈسٹری ہے۔ تاہم ایک بات جو گذشتہ عرصے میں واضح ہو چکی ہے وہ یہ کہ جمہوری ملک اس انڈسٹری کی پیداوار کا استعمال کم ازکم اپنے ملک کے لوگوں کے خلاف نہیں کرتے جبکہ اس کے برعکس غیر جمہوری یا نیم جمہوری ملکوں میں اسلحہ اور ظاقت دونوں ہی، آج بھی اپنے ہی ملک کے لوگوں کو اپنا آپ منوانے کے لیے برتی جا رہی ہے۔
حامد میر کے خلاف حملے کی جانب پھر آتے ہیں۔ میجر جنرل عاصم باجوہ نے اس کی مذمت بھی کی، رنجش بھی ظاہر کی اور قانونی چارہ جوئی کی دھمکی بھی دی۔ دوسری جانب پنجابی طالبان نے اعلان کیا کہ انہوں نے لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر یہ حملہ کیا ہے۔ کیا حامد میر حامد جعفری ہے جو لشکر جھنگوی اس کا مخالف ہوتا۔ رہے پنجابی طالبان، وہ پنجاب میں اس کو نشانہ کیوں نہ بنا سکے، جہاں وہ بیشتر وقت گذارتا ہے۔ یہ گروہ جو بھی ہے اس نے فوری طور پر یقینا” کسی اور کی زبان بولی ہے۔ براہ راست کوئی بھی کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کو نشانہ نہیں بنایا کرتا۔ اب آپ پکڑتے پھریں پنجابی طالبان کو۔ کون ہیں وہ اور کہاں ہیں وہ؟ وہی ناں جن کے بھائی بندوں سے حکومت وقت مذاکرات کر رہی ہے۔
سٹالن کا ایک مبینہ قول ہے،” انسان نہیں تو مسئلہ بھی نہیں”۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ڈھائی کروڑ لوگوں کے مارے جانے اور کروڑوں ہی لوگوں کو اپنی ہی زمین پر اتھل پتھل کر دینے کے بعد سٹالن ازم کا کیا ہوا۔ بلوچوں کے حق میں ایک حامد میر تو ہی نہیں بولتا۔ کچھ اور بھی بولتے ہیں۔ سب کو مار دو یا مروا دو، دگنے اور پیدا ہو جائیں گے۔ پرویز مشرف کے معاملے پہ صرف حامد میر کا ہی تو موقف سخت نہیں ہے۔ آئین کی بالا دستی کی بات تو بہت سے اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ فوج کو شریکہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ناراض ہو جائے گی تو آفت ٹوٹ پڑے گی۔ فوج ایک ادارہ ہے جس کو آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں بہر حال سدھرنا ہوگا۔ ملک ہے تو فوج ہے۔ ملک میں اگر انسانی رویوں کا یہی انداز رہا تو ملک کے لیے اور اس کی فوج کے لیے دعا کرنے پہ ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: