مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لوگ بغاوت کیوں نہیں کرتے؟||امجد نذیر

ایسا علم یا ایسے اعتقادات کی پکڑ اور جکڑ اسقدر مضبوط اور توانا مگر غیر محسوس ہوتی ھے کہ مشل فوکو لوگوں کو ثقافتی یا نظریاتی غلام یا قیدی قرار دیتا ھے ۔ ایک ایسی قید جو محکوم طبقہ، عوام، غریب لوگ اور باالخصوص مڈل کلاس اپنی خوشی اور آزادی سے اختیار کیے ھوئے ھوتی ھے ۔

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ بغاوت کیوں نہیں کرتے؟ مزدور کیوں اٹھ کھڑے نہیں ھوتے؟ کیوں انقلاب یا انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیتے؟ تبدیلی کیوں نہیں آتی؟ کیوں ایک ہی طبقے کے لوگ بار بار ھم پر مسلط ہو جاتے ہیں؟ مارکسی فلسفی انتونیو گرامچی کے نزدیک اشرافیہ یا حکمران طبقہ نہیں، جیسا کہ مارکس کا اپنا خیال تھا، بلکہ "غالب نظریہ” یہ کارنامہ سر انجام دیتا ھے ۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ایک ہی نظریے کے تسلط اور ادارہ سازی سے ہی عوام پر مسلط رہتے ہیں ِجسے گرامچی "ھیجیمونی” یعنی ثقافتی یا نظریاتی جبر قرار دیتا ھے ۔ پاکستان کی حالیہ صورتِ حال اِسکی بہترین عکاس ہے جس میں تینوں چاروں بڑی پارٹیاں ایک ہی نظریے کے پرچار، تقویت اور اِنجزاب میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ ہر ایک پارٹی شب و روز یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ اِس نظریے کی اصل امین اور علمبردار وہی پارٹی اور اسکے ہمنوا ہیں ۔ اور مملکت خداداد میں وہی اس نظریے کا بہترین احترام اور اطلاق بھی کرسکتے ہیں ۔ گرامچی کے خیال میں یہ جبر کسی طرح کے عملی یا جسمانی جبر سے ہٹ کر ھوتا ھے، یہ ایک طرح کا مستقل فطری، قلبی اور ذہنی مزاج اور رحجان بن جاتا ھے کیونکہ لوگوں کو اِسکے بغیر چیزیں اور معاملات لایعنی اور لاحاصل نظر آتے ہیں ۔ کوئی بھی گروہ یا طبقہ اسکو ایجاد یا اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ صدیوں سے موجود اور صدیوں ہی سے تعمیر و تشکیل پاتا رہتا ھے اور یکے بعد دیگرے تہہ در تہہ دبیز سے دبیز تر اور گہرے سے گہرا تر ھوتا چلا جاتا ھے اور لوگوں کے اپنے اور باالخصوص اشرافیہ کے مکرر استعمال، اشتمال اور افکار و اظہار سے سالہا سال کی پرتیں سمیٹتا، مقدس، مستحکم، مزین، مضبوط اور حقیقی بنتا چلا جاتا ھے ۔ بعد میں فرانسیسی فلسفی ‘مشل فوکو’ نے اس رحجان اور مزاج کی نئی پرتوں کا کھوج لگاتے ہوئے یہاں تک بھی کہہ ڈالا کہ ہر زمانے کا کے ایک "علمی دور” ہوتا ھے ، یہ دور بہت طویل بھی ہو سکتا ہے ۔ لوگوں کی ایک وسیع تعداد اِسی دورمیں رہ رہی ہوتی ہے، اسی نصاب میں زندہ ہوتی ھے اور اِس علم کی ھیجیمونی یا غلبہ بغیر کسی بھونچال کے صدیوں بلکہ ھزاروں سالوں تک بھی قائم رہ سکتا ھے ۔ کچھ دوسرے معنوں یعنی تاریخی پس منطر میں وہ اِسے ” جینیالوجی آف نالج” یا علم کا شجرہ اور حسب نسب بھی قرار دیتا ھے ۔ سادہ لفظوں میں تو وہ اسے "علم” ہی کہتا ھے لیکن یہ علم سائینس، سماجی سائینس اور منظق سے ماوراء محض اقدار، خیالات اوراعتقادات کا مجموعہ بھی ھو سکتا ھے ۔
ایسا علم یا ایسے اعتقادات کی پکڑ اور جکڑ اسقدر مضبوط اور توانا مگر غیر محسوس ہوتی ھے کہ مشل فوکو لوگوں کو ثقافتی یا نظریاتی غلام یا قیدی قرار دیتا ھے ۔ ایک ایسی قید جو محکوم طبقہ، عوام، غریب لوگ اور باالخصوص مڈل کلاس اپنی خوشی اور آزادی سے اختیار کیے ھوئے ھوتی ھے ۔ ایکایسا جواء جسے لوگوں نے آپ ہی آپ زیب گلو کیا ہوتا ھے ۔ اور انہیں اس میں کوئی جبر ، سکیم یا مجبوری نظر نہیں آتی بلکہ اسکی پیروکاری میں انہیں غربت، پس ماندگی اور معاشی تنگی سے ریلیف اور تسکین محسوس ہوتی ھے جو عمومی یقین کے برعکس اسں نظریے کا "سبب نہیں بلکہ نتیجہ” ہوتی ھے ۔ انتونیو گرامچی اور مشل فوکو کے نزدیک مزکورہ بالا اغلب نظریاتی دائرہ کار میں زبان، روایات، رسوم و رواج، ذات پات، عقائد، طبقاتی اونچ نیچ، عورتوں کا روائتی منصب اورسب سے بڑھ کر سوشل آرڈر اور مذھب سب کچھ شامل ہوتا ہے ۔
اشرافیہ اور حکمران طبقہ اسکی بار بار نظریہ فشا نی، تشریح وتفسیر اور معجز بیانی میں شاعری، ادب، تاریخ اور معروف اقوال یا واقعات کا سہارا لیتے ہیں اور یہ بھی عین ممکن ھے کہ حکمران اشرافیہ کے اپنے قول و فعل میں تضاد نہایت واضح ھو یا انکا اپنا یقین متزلزل ہو ۔ مثال کے طور پر چند روز پہلے ق لیگ کے چوہدری پرویز الہی نے پنجاب اسمبلی میں ھونے والی دھینگا مشتی پر رائے دیتے ھوئے کہا کہہ "پنجاب اسمبلی ھمارے لئے مقدس ھے، ھم نے یہاں پر دین کا کام کیا ھے” یہ اور اسطرح کی یا اس سے بڑھ کر کئی ایک مثا لیں ہمیں تمام پارٹیوں کے ترجمانوں اور راہنماوں کے بیانات اور اقدامات سے مل جائیں گی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ کیا اس نظریاتی جبر سے آزادی ممکن ہے؟ کیا نیا نظریہ تشکیل دیا جا سکتا ہے؟ یا کم سے کم غالب نظریے کے استحصالی پہلووں کو محدود کیا جا سکتا ھے ؟ ۔ اور اگر ایسا ھے تو کیسے؟ کسطرح آزادی بخش، مساوات پسندانہ ، منصفانہ اور خوشحالی عطا کرنے والے نظریے کااجراء، آغاز اور پھیلاؤ ممکن ھے ؟ مارکس کے اپنے خیال کے برعکس گرامچی کی رائے میں یہ جنگ طبقاتی کشکمش کی نہیں، جدلیاتی مادیت کی بھی نہیں اور نہ ہی تاریخی جبریت اور انقلاب کے لازمی امکان کی جنگ ہے جسے کسی ایک یا دوسری ریاست میں کسی ایک یا دوسرے
میدان یا گلی محلوں میں لڑا جا سکتا ھے بلکہ یہ جنگ نظریاتی جنگ ھےاور میدان کار زار
میں نہیں بلکہ لوگوں کے قلب و اذھان میں لڑی جانی چاہیے ۔ گرامچی اور مشل فوکو کے نزدیک ایسا ممکن تو ھے مگر کیسے ؟ ۔ ۔ ۔ نئی ممکنات پر بات کر نے سے پہلے:
صلائے عام ہے یاران نقطہ داں کے لئے !

                               

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: