مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک عید کارڈ پا کر||سجاد جہانیہ

وہ آدھی ملاقات کا دور تھا۔ آج کی نسل کو بتانا ضروری ہے کہ اس زمانے میں خط کو آدھی ملاقات کہا کرتے تھے۔ دور پار سے لوگ اک دوسرے کو خط لکھتے تو لفافہ اور اس میں بند چٹھی خط لکھنے والے کے ہاتھوں کا لمس لئے مطلوبہ پتے پر پہنچتی۔ پیاروں کو جو خط لکھے جاتے ان میں کبھی پھول بھی ڈال دیے جاتے۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم کس قدر تیزی سے بے لمس زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، غیر مرئی قسم کی بے روح زندگی۔ لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں Penless ماحول ہے۔ میرے جیسے ناسٹلجیا کا شکار لوگ سوچتے ہیں کہ انگلیوں کا قلم کے لمس سے محروم ہو جانا فخر کی بات ہے یا المیہ۔ میرا ایج گروپ وہ نسل ہے جس نے سرکنڈے کی قلم گھڑ کے استعمال کی ہے۔ ہم ”چراغ روشنائی“ کی پڑیاں دوات میں ڈال کر پانی میں حل کر کے ”سیاہی“ بنایا کرتے تھے پھر قلم کو قط لگا کر سیاہی میں ڈبو ڈبو کر گاچی (ملتانی مٹی) سے پوچی ہوئی تختیوں پر لکھا کرتے تھے۔ تب قلم کی تختی پر خوش خرامی سے وہ آواز بھی فضا کی سماعتیں سنا کرتیں جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

مجھے اپنے چوتھی جماعت کے استاد سید وزیر شمسی صاحب یاد آتے ہیں۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے، املا کا پیریڈ وہ پرائمری سیکشن کے سبزہ زار میں لیا کرتے تھے۔ طلبا ایک ایک بازو کے فاصلے پر بٹھا دیے جاتے اور شمسی صاحب بلند آواز سے لفظ پکارتے جسے ہم اپنی تختیوں پر لکھتے جاتے۔ پھر وہ باری باری ساری کلاس کے طلبا کو بلاتے۔ ایک نظر میں تختی دیکھ لیتے، جہاں غلطی ہوتی اس کی نشان دہی کرتے اور ساتھ ہی ایک درمیانی رفتار کا تھپڑ گدی میں جماتے۔

پھر فاؤنٹین پن کا زمانہ آ گیا۔ ایگل کے اور ڈالر کے پن ہوتے جن میں سے اکثر لیک کرتے اور انگلیاں روشنائی سے بھری رہتیں۔ ہمارے مسلم ہائی سکول ملتان کا جو گیٹ جماعت اسلامی دفتر کے سامنے ہے، اس سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب صفدر کی سٹیشنری کی دکان تھی۔ سکول میں کام کرتے کرتے فاؤنٹین پن کی روشنائی اگر ختم ہو جاتی تو کلاس انچارج سے چھٹی لے کر صفدر کے پاس جاتے۔ وہ پانچ پیسے لیتا اور پن میں روشنائی بھر دیتا۔

آپ یقین کیجئے قلم و قرطاس کا ساتھ چھوٹ رہا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے غیب سے مضامین لانے والے فرشتے بھی روٹھ گئے ہیں یا شاید فرشتوں نے بھی پیغام رسانی کے ورچوئل ذرائع اپنا لئے ہیں۔ اب کوئی آواز نہیں آتی۔ کی بورڈ کی ٹک ٹک بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے، سکرین پر پوروں کا مس ہونا کوئی آواز پیدا نہیں کرتا۔ اب تو یوں بھی گوگل آواز سن کر ٹائپ کرنے لگا ہے، لیجیے، انگلی کی پوروں سے ہی سہی، لکھنے کا جھنجھٹ ہی تمام ہونے کو ہے۔

کتاب اور اخبار ہی کو لیجیے، یہ لمس بھی ہم سے روٹھتا جا رہا ہے۔ ای بک اور پی ڈی ایف کلچر نے سینکڑوں، ہزاروں کتابوں کو آپ کے ہاتھ میں تھمے آلے کے اندر مقید کر دیا ہے۔ دو تین کمانڈز دینے پر پتہ نہیں کس لامکاں سے اٹھا کر کتاب کو سکرین پر حاضر کر دیتا ہے یہ آلہ۔ کاغذ اور روشنائی کے باہم ملاپ سے جو ایک خوش بو، شامہ سے ٹکرایا کرتی تھی، وہ عنقا ہوئی۔ یہ تو نئی کتاب کا ذکر ہوا، پرانی کتابیں بھی کھولی جاتیں تو ان کی مہک بتا دیا کرتی کہ کتنے ماہ و سال اس پر بیت چکے ہیں۔ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنا اور پڑھتے پڑھتے سینے پر رکھ کے سو جانا!

خیال و خواب ہوئی ہیں رفاقتیں کیسی

یہ سطریں، چھبیسویں روزے کو لکھی جا رہی ہیں۔ آج جو دفتر آیا تو میز پر سفید لفافہ رکھا تھا جس پر ڈاک ٹکٹیں لگی ہوئی تھیں۔ کھولا تو اندر سے عید کارڈ نکلا۔ یہ عید کارڈ ڈائریکٹر تعلقات عامہ سرگودھا شہزاد احمد ورک کی طرف سے موصول ہوا۔ ایک مدت بعد ڈاک کا لفافہ دیکھ کر اور عید کارڈ کا لمس پا کر مجھے یہ ساری باتیں یاد آ گئیں۔ اب تو مبارک بادیں بھی بے لمس ہو گئی ہیں۔ عید آئے گی تو میسجز، وٹس ایپ، ایس یم ایس کے ذریعے بے تحاشا عید مبارک کے پیغامات موصول ہوں گے۔ سٹیریو ٹائپ بے روح، بے جان مبارک بادیں اور ویسے ہی بے روح، بے جان گھڑے گھڑائے جوابات۔

یادش بخیر! ابھی وہ زمانہ بہت دور نہیں گیا جب رمضان شروع ہوتے ہی دکانوں کے باہر لمبے لمبے سٹال لگ جاتے جن پر رنگا رنگ عید کارڈ سجے ہوتے۔ دو چار روپے سے لے کر پچیس تیس روپے تک کی قیمت والے عید کارڈ۔ جس کی جو حیثیت ہے، اس کے مطابق کارڈ خرید لے۔ محکمہ ڈاک اخبارات میں پریس ریلیز چھپوایا کرتا تھا کہ فلاں تاریخ تک عید کارڈ پوسٹ کر دیں، اس تاریخ کے بعد پوسٹ ہونے والے کارڈ عید سے پہلے منزل مقصود نہ پا سکیں گے۔

ان سطور کا محرر، چونکہ قلمی دوستی کا بھی رسیا تھا، چنانچہ ہر عید پر کارڈوں کے لئے ادھر ادھر سے بچت کر کے بجٹ مختص کیا جاتا، پھر دستیاب وسائل اور عید کارڈز کی تعداد کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہوتا کہ کس کو کتنے روپے والا کارڈ ارسال کرنا ہے۔ ڈاک خانوں میں ٹکٹیں قلت کا شکار ہو جاتیں اور لیٹر بکس ٹھسا ٹھس بھر جاتے۔ ڈاکیے گھر گھر عید کارڈ پہنچاتے اور مکتوب الیہ اپنے پیاروں کی طرف سے آنے والے عید کارڈ پا کر ڈاکیے کو عیدی دیتے۔ خیال و خواب ہو گئیں یہ سب سرگرمیاں دیکھتے ہی دیکھتے۔

وہ آدھی ملاقات کا دور تھا۔ آج کی نسل کو بتانا ضروری ہے کہ اس زمانے میں خط کو آدھی ملاقات کہا کرتے تھے۔ دور پار سے لوگ اک دوسرے کو خط لکھتے تو لفافہ اور اس میں بند چٹھی خط لکھنے والے کے ہاتھوں کا لمس لئے مطلوبہ پتے پر پہنچتی۔ پیاروں کو جو خط لکھے جاتے ان میں کبھی پھول بھی ڈال دیے جاتے۔ اندی ور نے ساٹھ کی دہائی میں ایک بڑا مشہور گیت لکھا تھا جسے میڈم لتا نے سروں کی مٹھاس بخشی ”پھول تمھیں بھیجا ہے خط میں۔ پھول نہیں میرا دل ہے“ تب خط لمس کی ترسیل کرتے تھے اور لکھنے والے اپنا دل بین السطور پرو دیتے۔ عید کارڈ خریدنے کے لئے بازار جانا، اسے لکھنا، پھر ٹکٹ لگا کر پوسٹ کرنا۔ ایسا تردد انسان وہیں کرتا ہے جہاں محبت ہوتی ہے۔ اب ایک ٹچ سے سینکڑوں لوگوں کو پیغام چلا جاتا ہے۔ کوئی تردد نہیں، کوئی محبت بھی نہیں۔

خطوں میں لکھنے والے کی انگلیوں کے پوروں کا لمس بند ہوتا تھا جسے پا کر آدھی ملاقات کا احساس ہوتا۔ اب سکرین پر اک دوجے کو لائیو دیکھ کر بات کرتے ہیں مگر ملاقات کا ایک فی صد احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔ مشینوں اور گیجٹس کے ساتھ رہ کر ہم بھی مشین بنتے جا رہے ہیں، بے حس اور روح سے خالی۔ اتنی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی عمر کا حساب کرتا ہوں تو کچھ خود غرض قسم کی تسلی ہوتی ہے کہ شکر ہے کہ دنیا کے مکمل بے لمس اور ورچوئل ہونے تک میں نہیں ہوں گا۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: