مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ:ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس،عدالت نے بابراعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعامسترد کردی

رولنگ حقائق کی بجائےالزامات کی بنیاد پردی گئی کیااسپیکرایجنڈے سے ہٹ کرچل سکتاہے؟متنازع حقائق پرنہیں جانا چاہتے وکیل نے کہا کہ حقائق متنازع ہوں تواسکی تحقیقات ضروری ہیں۔۔۔۔۔

سپریم کورٹ میں آئینی وسیاسی بحران ازخود نوٹس کیس کی سماعت عدالت نے بابراعوان کی ان کیمرہ بریفنگ کی استدعامسترد کردی تحریک انصاف کے وکیل نے سندھ ہاوس اورآواری ہوٹل لاہورکا تذکرہ کیاتوچیف جسٹس نے سرزنش کی قصےکہانیاں مت سنائیں بتائیں ڈپٹی اسپیکرنےرولنگ کیسے دیدی؟

رولنگ حقائق کی بجائےالزامات کی بنیاد پردی گئی کیااسپیکرایجنڈے سے ہٹ کرچل سکتاہے؟متنازع حقائق پرنہیں جانا چاہتے وکیل نے کہا کہ حقائق متنازع ہوں تواسکی تحقیقات ضروری ہیں۔۔۔۔۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی چیف جسٹس نے سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو سینیٹر اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ پنجاب میں جوکچھ ہورہا ہے وہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کی کڑی ہے۔۔۔اگر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیان حلفی دے دیں کہ وزیر اعلی کے انتخابات کب ہونگے۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب اس پر بات کرنے کا موقعہ آئے گا تو سن لیں گے۔کل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا تھا ائین کے مطابق الیکشن ہونگے۔اعظم نذیر تارڑ نےکہا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آج اجلاس ہونے کی یقین دہانی کرائی اس کے باوجود پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتےہوئے کہا کہ انتہائی اہم نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے،اپریل کو قومی اسمبلی میں جو ہوا اس پر سماعت پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں،عدالت کے بارے میں منفی کمنٹس کیے جا رہے ہیں،کہا جا رہا ہے کہ عدالت معاملے میں تاخیر کر رہی ہے، پنجاب اسمبلی کا معماملہ آخر میں دیکھ لیں گے،آج کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی کےوکیل بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا، عدالت میں ایم کیو ایم، تحریک لبیک، پی ٹی ایم، جماعت اسلامی ،راہ حق پارٹی جوپارلیمان کا حصہ ہیں لیکن کیس میں فریق نہیں، ازخودنوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے عدالت کو کہا گیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی اور غیرآئینی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے۔۔۔ ھمارے سامنے آرٹیکل 95 بھی اس کا بھی ایک مقصد ہے۔۔۔۔ بابر اعوان نے کہا کہ  ن لیگ کے صدر نے کمیشن کا مطالبہ کیا ہے،

درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کو فوری ریلیف دیا جائے۔ درخواست گزاروں کی آرٹیکل آرٹیکل 69 اور 95 کی تشریح کی بھی استدعا کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس عدالت میں  آرٹیکل 5 کے تحت کسی کو غدار کہا گیا۔۔یہ بھی کہا گیا کہ آرٹیکل 5 کے ذریعے کسی کو غدار کہا گیا ہے، درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 95 اور 69 کی تشریح کی استدعا کی۔۔۔۔آرٹیکل 63 اے پر کسی نے لفظ بھی نہیں کہا، ان کا دعوی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں،ایک سیاسی جماعت جو مرکز، پنجاب، آزاد جموں کشمیر اور جی بی میں اکثریتی پارٹی ہے ،ن لیگ کے صدر نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا، درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظرانداز کیا جائے،اپوزیشن چاہتی ہے عدالت انکے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے، یہ کیس سیاسی انصاف کی ایڈمنسٹریشن کا ہے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ اپ ھمیں بتائیں اس کا بیک گرائونڈ کیا ہے، آپ اس بات کریں ، آپ اسپیکر کے اقدامات کا دفاع ضرور کریں اس پر اپ کو خوش امدید کہتے ہیں ، لیکن یہ بھی بتائیں کیا سپیکر کو اختیار ہے کہ ایجنڈے سے ہٹ کر ممبران سے مشاورت کے بغیر رولنگ دے سکتا ہے۔۔؟اپ ھمیں بتائیں کہ کیا سپیکر آئینی طریقہ کار سے ہٹ کے فیصلہ دے سکتا ہے،؟کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس ایسا میٹیریل تھا جو انھوں نے ایسی رولنگ دی؟ بابر اعون نے کہا کہ میں اس پر عدالت کو بتائوں گا کہ کونسے راستے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں راستے نہ بتائیں ہم راستے ڈھونڈ لیں گے،صرف یہ بتائیں کہ اسپیکر نے کونسی بنیاد پر ایکشن لیا وہ ھمیں بتائیں۔۔ اس دوران بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ میرے پاس کچھ ایسا مواد ہے جس پر عدالت کو  ان کیمرا بریفنگ دینا چاھتا ہوں۔۔۔چیف جسٹس نے جواب نہ دیتے ہوئے ھم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار ہے کہ ھائوس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی اور معاملے پر کاروائی چلائے۔۔۔؟اس حوالے سے کیا ایسا کوئی مٹیریل موجود ہے؟ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ کب ہوئی؟ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے، عدالتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں، اس کیس میں ایک الزام لگایا گیا ہے، ھم متضاد فئکٹس میں نہیں جانا چاھتے۔۔۔ڈپٹی اسپیکر نے ایک اقدام کیا ہے، بنیادی چیز یعنی حقائق پر آئیں، فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی، بابر اعوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے سے پہلے ایک میٹنگ ہوتی ہے اور اس کا سائفر آتا ہے سات مارچ کو پاکستان  میں۔۔۔ میٹنگ میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن، ڈیفنس اتاشی سمیت تین ڈپلومیٹس شامل تھے، ڈی سائفر کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس میں چار چیزیں ہیں،کیا وہ معلومات کوڈز میں آئی ہیں یا سربمہر لفافے میں؟ آپ نے ڈی سائفر کا لفظ استعمال کیا،میں اس کو یوں کر لیتا ہوں کہ ہمارا فارن آفس اس پر نظر ڈالتا ہے،ایک میٹنگ بلائی جاتی ہے جس میں فارن سیکرٹری دستیاب نہیں ہوتے، سیکریٹ ایکٹ کے تحت کچھ باتیں کرنا نہیں چاہتا، خفیہ پیغام پر بریفننگ دی گئی،خفیہ پیغام پر کابینہ کو بریفننگ دی یا دفتر خارجہ میں اجلاس کو؟کابینہ اجلاس میں خفیہ پیغام پر بریفننگ دی گئی، چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مخطب ہوکر کہا کہ آپ سے صرف واقعات کا تسلسل جاننا چاہ رہے ہیں، اٹارنی جنرل بولے مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں،خارجہ پالیسی پر کسی سیاسی جماعت کے وکیل کو دلائل نہیں دینے چاہیے، خط کا معاملہ فارن پالیسی کا معاملہ ہے اس کو کوئی سیاسی پارٹی ڈسکس نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ھم فارن پالیسی کے معاملات پر مداخلت نہیں کرسکتے۔ بابر اعوان نے کہا کہ تمام شھریوں پر آئین کے مطابق لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار رہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو دیگر پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔۔ دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے،آرٹیکل چار غیرملکی شہریوں کو بھی وہی حقوق دیتا ہے جو پاکستانیوں کے ہیں،عدالت میں زیر سماعت مقدمہ بنیادی حقوق کا نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا سپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے، بابر اعوان یہ بتائیں کہ کیا سپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، سپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر۔۔۔نینشل سیکورٹی کونسل اجلاس کے منٹس کدھر ہیں،ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ نے نتیجہ اخز کیا ہے،ڈپٹی اسپیکر نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا،عدالت کے سامنے حقائق کی بات کریں۔۔۔یہ عدالت قانون کے مطابق عمل کرے گی۔۔ بظاھر ھمارے سامنے یہ کیس  الزمات اور مفروضوں پر مبنی ہے الزامات اور مفروضے قابل تسلیم ہیں یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے۔۔۔لیکن عدالت متضاد الزامات کی طرف نہیں جائیگی۔۔۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ھمیں یہ سماعت جلد مکمل کرنی ہے۔ اس سماعت میں ھم پروگریس دینا چاھتے۔۔۔۔ ادھر ادھر کی باتیں نا کریں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 69 اور 95  پر آپ کا کیا موقف ہے،آپ یہ بتا دیں کہ ڈپٹی سپیکر کے کیا اختیارات ہیں،بابر اعوان آپ آپ غیر ضروری باتیں کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت ریاست کے ساتھ  وفادار ہونا سب پر لازم ہے۔جو وفادار نہیں ہے ا سکے خلاف آپ نے کیا ایکشن لیا۔ بابر اعوان نے جواب دیتےہوئے کہا کہ ہم نے بطور پارٹی ان میمبرز نے جو منحرف ہوئے ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجے ہیں۔ وفاداری پر ھماری پارٹی نے کوئی بات نہیں اور نہ ہی کوئی ایکشن لیا ۔۔وزیر اعظم اور ھم نے اس غداری والے معاملے پر بھت احتیاط سے کام لیا تھا۔۔۔اس کی وجہ پاکستان تھی، پاکستان صدیوں رہے گا ھم آتے جاتے رہیں گے۔ قومی مفاد سب سے بے چارہ لفظ ہے جو پاکستان میں بہت استعمال ہوتا ہے، چیف جستس نے کہا کہ قومی مفاد کا لفظ سپیکر کے حلف میں کہاں استعمال ہوا ہے۔۔۔۔بابر اعوان نے کہا کہ رولز کے مطابق سپیکر ووٹنگ کے علاوہ بھی تحریک مسترد کر سکتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جب تحریک ایوان میں پیش کر دی جائے تو پھر فیصلہ کیے بغیر خارج نہیں کی جاسکتی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے مطابق رولز بذات خود کہتے ہیں کہ تحریک کو ووٹنگ کے بغیر مسترد کیا جاسکتا ہے، ہی پہلی بات آپ نے کام کی اور بھترین کی ہے۔۔۔ بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 94 کے تحت صدر وزیراعظم کو نئی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کا کہ سکتے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی، میں وہ پارٹی ہوں جس کے 22 بندے اسلام آباد میں خریدے گئے۔۔ ایک ایم این اے نے برملا  کہا کہ ھارس ٹریڈنگ کی ہے۔۔اس کے بعد پنجاب میں چالیس میمبرز کو خریدا گیا۔ اس صورتحال میں میرے پاس کیا داد رسی رھتی ہے۔اس عمل کو نہ روکا گیا تو جو منحرف ہوئے ان کو شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ جس ادارے میں بیٹھ کر یہ کام کیا جارہا ہے وہ ادارہ ملک کے لئے بھت کچھ کرتا ہے۔۔میں اور میری پارٹی ریمیڈی لیس ہے۔۔ میرے پاس کچھ نہیں۔۔ چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں کیا ریمیڈی ہوتی ہے؟۔بابر اعوان جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاست میں ریمیڈی لوگوں کے پاس جانا ہے۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے لوگ آپ سے منحرف ہوتے ہیں تو اس پر ھم بطور عدالت فیصلہ نہیں دے سکتے، اس لئے آئین کی شق 63 میں اس کا طریقہ موجود ہے۔بابر اعوان نے کہا کہ اس عدالت کی دونوں طرف جو وکلا بیٹھے ہیں ان میں سے کسی سائیڈ کی جیت ہو لیکن نقصان ملک کو ہوگا۔۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے گا۔  بابر اعوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی بلکل اس ساری صورتحال میں ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے گا۔۔جو کچھ بھی ہوگا اس میں عوام متاثر ہوگا۔۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نےکہا اس لئے آپ کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے دلائل جلد مکمل کریں تا کہ ھم کوئی جلد فیصلہ کرسکیں۔ بابر اعوان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ایک وکیل نے کہا اب چھانگا مانگا نہیں رہا، اب سندھ ہاؤس اور آواری چلے گئے ہیں،ذوالفقار علی بھٹوکو  آئین دینے کے بعد سولی پر لٹکایا گیا ، اس پر صدارتی ریفرنس اس عدالت میں زیر التوا ہے،اللہ اس ملک اور اپ پر راضی ہے راستہ صرف انتخابات ہے۔۔پی پی پی کے چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں،انڈیا اور بنگلہ دیش نے ای وی ایم کا راستہ نکالا، مگر ہم نہیں مانتے،اگر یہاں سے راستہ بننا ہے تو میں سعادت سمجھتا ہوں کہ اس تاریخ کا حصہ بنوں، ڈیڈلاک روکنے کے لیے آپ نے از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ماورائے آئین کام نہیں ہو گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے،بابر اعوان نے کہا کہ ایک الیکشن کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوگیا شفاف الیکشن نہیں ہوسکے، انڈیا، بنگلہ دیش اور فلپائن نے ای وی ایم کے ذریعے شفاف الیکشن شروع کیے،صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا ہے۔۔۔اس کیس میں بدقسمتی سے درخواست گزاروں نے سپیکر رولنگ کو چیلنج کیا،پارلیمنٹ کے استثنی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا،

سپیکر کو کیس میں فریق بنایا گیا ہے،پارلیمنٹ کے استحقاق کو آئین کے مطابق چیلنج نہیں کیا جاسکتا، آئین کی خلاف ورزی ہو تو کیا پھر بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا،آئین کی خلاف ورزی سے متعلق الگ طریقہ کار ہے،ہمارا آئین جمہوریت کی بنیاد پر بنا ہے،آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے،آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا،اس معاملے کاحل نئے الیکشن ہی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر اپنے ریٹارمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ایوان سپیکر سے مطمئن نہ ہو تو عدم اعتماد کر سکتا ہے، سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو سپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا،ہمارا آئین جمہوریت کی بنیاد پر بنا ہے،آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے،آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی،‏صدر کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا،‏اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی،عدالت بھی پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کرتی عدالت کی طرف سے کوئی بھی ڈائریکشن دائرہ اختیار سے تجاوز ہوگا،‏سپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے اسپیکر ایوان کا ماتحت ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نےاستفسار کیا کہ اسپیکر اگر رولنگ دے دے تو کا ایوان واپس کر سکتا ہے؟ اگر اسپیکر ایوان کی بات ماننے سے انکار کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاوس اسپیکر کو اوور رول کر سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسپیکر کا اقدام تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد کی میعاد ہٹانے کیلئے تھا، جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم رولنگ کو نہیں چھیڑ سکتے لیکن جو وزیراعظم نے صدر کو تجویز بھیجی اس کو دیکھ سکتے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کو 18 فیصد افراد کے کہنے پر پیش کر دیا جائے تو بھی عدالت اس کو نہیں دیکھ سکتی، وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے تب بھی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی؟علی ظفر نے کہا کہ عدالت کسی بھی پارلیمنٹ کے معاملے کو نہیں دیکھ سکتی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکے مطابق اس کیس میں فورم اسپیکر کو ہٹانا تھا۔ علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک فیصلہ دے گی تو پارلیمان کا ہر عمل عدالت میں آجائے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمان اگر ایسا فیصلہ دے جس کے اثرات باہر ہوں تو پھر اپ کیا کہتے ہیں ؟وکیل نے کہا کہ عدالت پارلیمان کے فیصلے کا جائزہ نہیں لے سکتی۔عدالت پارلیمان کے باہر ہونے والے اثرات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت ہر شہری اسکا پابند ہے۔کیا اسپیکر آئین کے پابند نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے،درخواست گزار کہتے ہیں آئین کی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے،عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے،علی ظفر نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج ہوا تھا، ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ایوان کے آئینی انتخاب کو بھی استحقاق حاصل ہے، عدالت قرار دے کہ تحریک عدم اعتماد پارلیمانی کارروائی نہیں تو ہی جائزہ لے سکتی ہے، جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ یہ پارلیمانی مسائل تو ہو سکتے ہیں لیکن عدالت پارلیمنٹ پر مانیٹر نہیں بن سکتی،علی ظفر نےکہا کہ پارلیمنٹ کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ

کیا وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے؟علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہےچیف جسٹس نے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ سپیکر کی بدنیتی کہاں تھی؟اگر سپیکر وزیر اعظم کو بچانا چاہتا ہے تو ایسی صورتحال میں اپوزیشن بھی ہوتی تو ایسا ہی کرتی۔ علی ظفر نے کہا کہ میں سیاسی معاملے میں نہیں جاؤں گا، عدالت بدنیتی کی بات کر رہی ہے، میں صدر مملکت کا وکیل ہوں ڈپٹی اسپیکر کی بات نہیں کروں گا۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکا نکتہ دلچسپ ہے کہ سپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے،رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیا گیا، عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے،ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نےکہا کہ یوکے کی پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ نے تبدیل کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس ارٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے۔ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے۔پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمان کے استعمال کا تعین کرنا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا آئین شکنی کو بھی پارلیمانی تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نےکہا کہ عدم اعتماد کی تحریک اور منحرف ارکان سے متعلق کاروائی کا طریقہ کار آئین میں ہے۔ اپ کی دلیل کے مطابق پارلیمان کی اکثریت ایک طرف اور اسپیکر کی رولنگ ایک دوسری طرف ہے۔کیا وزیراعظم اکثریت کھونے کے بعد بھی کیا وزیراعظم وہ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر صلاح الدین نے کل ہٹلر والی غلط مثال دی تھی،ہٹلر کے دور میں جرمن پارلیمنٹ اور حکومت رولنگ کے ذریعے برقرار رہی تھی، موجودہ کیس میں عوام سے اپیل کی گئی ہے جس میں کوئی برائی نہیں، بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جا رہی تھی ،جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی، ہماری کوشش ہے معاملہ کو جلد مکمل کیا جائے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ  آمر کبھی الیکشن کا اعلان نہیں کرتا، چیف جسٹس نے کہا کہ ھم آج وکلا کے دلائل مکمل کرنا چاھتے ہیں ، اس لئے سماعت لمبی کرنا چاھتے ہیں۔ھم اٹارنی جنرل کو سننے کے منتظر ہیں۔ ابھی نعیم بخاری کو بھی سنیں گے نعیم بخاری مجھے اج روزہ ہے، مجھے اجازت ہو تو میں کل دلائل دینا چاھتا ہوں، زیادہ دلائل کے لئے وقت نہیں لوں گا۔اٹارنی جنرل نے کہا میں زیادہ دلائل قانونی نکات پر ہونگے اور دلائل کل دونگا۔۔۔سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اسیمبلی کا معاملہ اٹھایا  اور کہا کہ عدالتی احکامات کےباوجود پنجاب میں وزیر اعلی کےالیکشن مہیں کرائے جارہے چھ دن سے صوبہ بغیر وزیر اعلی کے ہے۔۔وہاں تماشہ ہورہا ہے۔۔ اسیمبلی کی جاب سے ایک مراسلہجاری کیا گیا جس میں ارکان کو اندرجانےکی اجازت نہیں ہے پنجاب کے وکیل نے کہا کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا گیا ڈپٹی اسپیکر اپنے فرائض پورے کررہے ہیں ۔۔ چیف جسٹسنے کہا کہ ہم قومی اسیمبلی کا اشو پہلے حل کرینگے۔ پنجاب اسیمبلی کا اشو بعد میں دیکھیں گے۔ عدالت میں قومی اسیمبلی کے میمبران موجود ہیں جو وکلا کی موجودگی میں ایک لفظ نہیں بول رہے ،ھم ان کے بھتر رویے کے معترف ہیں۔پنجاب والے اشو کو کل سنیں گے اس کو ھم۔سنیں یا لاھور ہائی کورٹ بھیج دیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔۔۔

%d bloggers like this: