مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قندھار، ایک حملہ تین کہانیاں||حیدر جاوید سید

شامی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ داعش کے گرفتار پاکستانی جنگجوئوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ان جنگجوئوں میں زیادہ تعداد پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہروں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں سے فرار ہونے والے کالعدم تنظیموں کے کارکنان پر مشتمل ہے ،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

30جنوری 2015ء کا دن شکار پور کے شہریوں کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے خودکش بمباروں نے مقامی مسجد و امام بارگاہ پر اس وقت حملہ کیا جب نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی۔ دہشت گردوں کے اس حملے میں 65نمازی شہید اور 100سے زیادہ زخمی ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ایک تھا لیکن لشکر جھنگوی نے 2خودکش بمباروں کی تصاویر جاری کیں۔ سانحہ شکار پور نے صوفی مزاج کی حامل سندھ وادی میں خوف و ہراس کی لہر دوڑادی۔
یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ شامی میڈیا کے حوالے سے یہ خبریں دے رہے تھے کہ شام میں داعش کے گرفتار ہونے والے غیرمقامی جنگجوئوں نے جن کا تعلق پاکستان سے ہے، دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ لشکر جھنگوی اور داعش کے درمیان پاکستان میں اہداف کے حصول کے لئے مشترکہ کارروائیاں کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے۔
شامی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ داعش کے گرفتار پاکستانی جنگجوئوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ان جنگجوئوں میں زیادہ تعداد پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہروں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں سے فرار ہونے والے کالعدم تنظیموں کے کارکنان پر مشتمل ہے ،
شامی میڈیا کے اس دعویٰ کی تصدیق ایک اور مرحلہ پر لشکر جھنگوی کے نائب امیر امجد فاروق معاویہ کی گرفتاری کے بعد اس کا ویڈیو بیان ٹی وی چینلوں سے نشر کئے جانے سے ہوئی۔

امجد فاروق معاویہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل پر طالبان کے حملے کے دوران فرار ہونے والے قیدیوں میں شامل تھا۔ لشکر جھنگوی کے اس اہم جنگجو کی شام میں گرفتاری 2015ء کے رمضان المبارک سے چند دن قبل عمل میں لائی گئی تھی۔ شام کی وزارت داخلہ نے وزارت خارجہ کے توسط سے پاکستان کی سول قیادت اور عسکری حکام کو باضابطہ طور پر امجد معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ان کے اعترافی بیانات کی آڈیو ویڈیوز کے ساتھ چند دستاویزات بھی شیئر کی تھیں۔
یہ ساری تفصیلات یوں یاد آئیں کہ لشکر جھنگوی کا ایک اہم کمانڈر عبدالوہاب لاڑک المعروف حکیم علی جان قندھار افغانستان میں گزشتہ روز نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہے۔

عبدالوہاب لاڑک 30جنوری 2015ء کے سانحہ شکار پور کا منصوبہ ساز ہی نہیں تھا بلکہ یہ ان افراد میں بھی شامل تھا جو لشکر جھنگوی اور داعش کے درمیان اہداف کے حصول کے لئے مشترکہ کارروائیوں کے معاہدہ کا حصہ تھے۔
شکار پور کی مسجدوامام بارگاہ پر حملہ کے علاوہ عبدالوہاب لاڑک سندھ میں ٹارگٹ کلنگ کی 17وارداتوں کے علاوہ حساس اداروں کے مراکز پر حملوں اور پی اے ایف بیس سمنگلی کوئٹہ کے علاوہ کراچی اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
2013ء سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب یہ خطرناک جنگجو ملک اسحق اور غلام رسول شاہ کے پولیس مقابلہ میں مارے جانے کے بعد سے ہم خیال جنگجوئوں کی کمان سنبھالے ہوا تھا۔
2018ء اور 2020ء میں کابل کے نواح میں ہزارہ برادری کے تعلیمی و مذہبی مراکز پر ہونے والے حملوں کے منصوبہ ساز کے طور پر اس وقت کی افغان حکومت نے اس کا نام لیا۔
اشرف غنی کے دور میں اس کی گرفتایر پر 50ہزار امریکی ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا۔ عبدالوہاب کو اس وقت افغانستان میں داعش کے جنگجوئوں اور مقامی تنظیموں کے درمیان رابطہ کاری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جب داعش کے جنگجووں کی ایک بڑی تعداد شام اور عراق سے افغانستان منتقل ہوئی ،
دولت اسلامیہ خراسان کے پاکستانی چیپٹر کے نگران اور لشکر جھنگوی کے جنگجوئوں کے سربراہ کے طور پر پچھلے چند برسوں (2014ء سے 2021ء) کے درمیان اس کے مقررکردہ اہداف کے حصول کے لئے دہشت گردوں نے ملک بھر میں متعدد کارروائیاں کیں۔
عبدالوہاب لاڑک عرف حکیم علی جان، سی ٹی ڈی بلوچستان اور سی ٹی ڈی سندھ کے لئے چند برسوں سے درد سربنا ہوا تھا۔ اس شاطر منصوبہ ساز کو جنگجوئوں کی صفوں میں اس لئے بھی اہمیت حاصل تھی کہ اسے فرقہ واردانہ شدت پسند تنظیموں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی برین واشنگ میں خاص مہارت حاصل تھی۔
چرب زبان، جدید اسلحہ چلانے میں ماہر اور منصوبہ ساز کی شہرت رکھنے والا یہ دہشت گرد دو دن قبل افغانستان کے شہر قندھار میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اس کے مارے جانے کے حوالے سے گردش کرتی خبروں میں ایک یہ بھی ہے کہ 22مارچ کو اسلام آباد میں اسلامی کانفرنس تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس سے قبل افغان عبوری حکومت کو بھیجے گئے پیغام میں دوٹوک انداز میں واضح کیا گیا تھا کہ او آئی سی عالمی برادری کے ساتھ افغان ایشو پر صرف اس طور بات چیت کرے گی اگر افغان عبوری حکومت قطر معاہدہ کے مطابق افغانستان میں موجود غیرملکی دہشت گردوں کے خاتمے کا وعدہ پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔
کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق افغان عبوری حکومت نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار اس طرح کے پیغام کو سنجیدگی سے لیا اور کابل سے علاقائی امارات (صوبوں) کے ذمہ داروں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی امارات کی حدود میں موجود غیرملکی جنگجوئوں کے خلاف کسی تاخیر کے بغیر کارروائی کریں۔
عبدالوہاب لاڑک کی ہلاکت کو کابل سے جاری ہونے والے اس حکم پر عملدرآمد کا عملی مظاہرہ قرار دیا جارہا ہے۔
لاڑک کے خلاف کارروائی میں تین مزید جنگجو بھی ہلاک ہوئے ان کی ابھی شناخت نہیں ہوسکی۔ عبدالوہاب لاڑک عرف حکیم علی جان کے مارے جانے کے حوالے سے اس سے مختلف ایک نہیں بلکہ دو آراء اور بھی ہیں۔
پہلی بالائی سطور میں عرض کرچکا دوسری یہ ہے کہ لشکر جھنگوی سے 2010ء میں الگ ہوکر لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے منظم ہونے والے جنگوئوں اور لشکر جھنگوی کے درمیان ملک اسحق وغیرہ کے پولیس مقابلہ میں مارے جانے کے بعد تنظیمی مالیات پر جنم لینے والے تنازے کو سنجیدگی سے نہ لینے کا نتیجہ لاڑک کی موت کی صورت میں سامنے آیا ہے ،
کہا جارہاہے کہ لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے منظم ہونے والے گروپ کا روز اول سے یہ مطالبہ تھا کہ مالیات کی دونوں گروہوں میں مساوی طور پر تقسیم شرعی تقاضہ ہے۔
مالی تنازع نے ایک وقت میں اس قدر شدت اختیار کرلی تھی کہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ کے جو ذمہ داران لشکر جھنگوی کے مالی معاملات کو دیکھتے تھے ان میں سے اہم ترین شخصیت شمس الرحمن معاویہ لاہور میں قتل کردیئے گئے۔ اس قتل کے چند دن بعد ایک دوسرے مسلک کے عالم دین قتل ہوئے اور پھر دونوں قتلوں کو فرقہ وارانہ دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔
اصل تنازع کی پردہ پوشی کے لئے دو مخالف مکاتب فکر کے رہنمائوں کے قتل سے منصوبہ سازوں نے وقتی طور پر اپنے مقاصد تو حاصل کرلئے مگر مالیاتی امور کے حوالے سے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
اس کے پس منظر میں ایک اور کہانی بھی ہے وہ پھر کبھی سہی۔ فی الوقت یہ ہے کہ قندھار میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے کچھ صحافی عبدالوہاب لاڑک عرف حکیم علی جان کی ایک حملے میں ہلاکت کو بیرونی کارروائی بھی کہہ رہے ہیں۔
قندھار کے حکام کا موقف ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ساری باتیں افواہوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
بہرحال خود قندھار کے حکام اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ دو روز قبل کے ایک حملے میں مارے جانے والے جنگجو کی شناخت عبدالوہاب لاڑک عرف حکیم علی جان ہے اور اس کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہے اور یہ بھی کہ مرنے والا لشکر جھنگوی اور داعش خراسان کے درمیان رابطہ کار تھا۔ البتہ کسی بیرونی کاروائی کی وہ تصدیق نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: