مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان||حیدر جاوید سید

بھٹو صاحب کے مقابلہ میں جناب عمران خان نے ساڑھے تین پونے چار سال میں ایسا کیا کیا کہ امریکہ ان کا مخالف ہو؟ وہ ماضی میں ڈرون حملوں کے مخالف رہے یہ مہم ایک جرمن این جی او کی جانب سے سپانسر تھی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وسعت اللہ خان کا شخصی احترام اپنی جگہ، وہ ملنسار ہیں بات سلیقے سے کرتے ہیں ان کے کالم پڑھنے والوں کے اذہان اور دلوں پر دستک دیتے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے وہ ان کالم نگاروں میں شامل ہیں جو پڑھے جاتے ہیں۔ ہم بھی برسوں سے ان کے کالموں کے قاری اور تحقیقاتی رپوٹوں کے مداح ہیں۔
بلاشبہ اپنی رائے رکھنے کا انہیں بھی حق ہے اس حق کا احترام کیا جانا بھی ضروری ہے لیکن کبھی کبھار ان جیسا صاحب مطالعہ اور جہاندیدہ شخص جب پاکستانی سیاست کے بعض واقعات اور شخصیات کے حوالے سے ڈنڈی مارتا ہے تو افسوس ہوتا ہے۔
سیاسیات و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہماری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ بسا اوقات بندہ غیرجانبداری کے چکر میں حقائق کو مسخ کرنے لگتا ہے۔ ویسے تو غیرجانبداری بذات خود حقائق کو مسخ کرنا ہی ہے۔ گوشت پوست کا انسان غیرجانبدار ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم یا آپ، سبھی کسی نہ کسی طور پسندوناپسند کے اسیر ہی ہیں یہی انسانی جبلت ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے چند امریکہ مخالف بیانات کو لے کر یہ بحث ہورہی ہے کہ عمران خان بھی وہی باتیں کررہے ہیں جو بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) نے اپنے آخری ایام میں کی تھیں اسی لئے ان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے ،

ویسے تو یہ موازنہ بنتا ہی نہیں اور یہ ویسے ہی ہے جیسے نوازشریف کو انقلابی کامریڈ بناکر پیش کرنے کی مہم تھی لیکن انقلابی کامریڈ ایک بار دس سالہ معاہدہ جلاوطنی کے عوض خاندان سمیت جدہ چلا گیا اور دوسری بار جیل سے سیدھا لندن علاج کے لئے۔
نوازشریف لندن میں بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر صاحبزادی کے ہمراہ وطن واپس آئے تو ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوا۔ وہ جیل گئے اورصاحبزادی بھی ، پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
اب وہ علاج کے لئے لندن مقیم ہیں۔ شادیوں اور دیگر تقریبات میں جاتے ہیں، چائے خانوں اور کافی ہاوس میں بھی تشریف لیجاتے ہیں، سیاسی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ ملاقاتیں اور تقاریر پھڑکاتے ہیں۔
یہاں جیل میں تھے تو ان کی بیماری کے کمرشل پروگراموں (اُن دنوں بھی عرض کیا تھا کہ ان کی بیماری کے حوالے سے لگی میرا تھن نشریات کمرشل ہیں) میں لمحہ بہ لمحہ یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ "وہ اب نکلے کہ اب نکلے” بہرطور اللہ کا شکر ہے وہ اچھے بھلے ہیں بس ڈاکٹر امریکہ میں اور وہ لندن میں ہیں طویل فاصلہ جلد صحت یابی کے آڑے آرہا ہے۔
انشاء اللہ جیسے صحت مند ہوں گے وطن واپس آئیں گے۔ صحت مند کب ہوں گے یہ اللہ جانتا ہے یا پھر خود میاں نوازشریف۔ معاف کیجئے گا بات وسعت اللہ خان کے حوالے سے کرنا تھی مگر یہ ذکر کامریڈ نوازشریف درمیان میں آگیا۔

گزشتہ چند دنوں کے دوران وسعت اللہ خان کی دو مختصر ویڈیوز سامنے آئیں جن میں وہ نجیب الطرفین بھٹو مخالف دو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل تھی اور 1970ء کے انتخابات میں بھی۔
ہم اگر اس موقف کو اس بنیاد پر تسلیم کرلیں کہ بھٹو کی پارٹی مغربی پاکستان میں ہی تھی تو پھر اس اصول پر عوامی لیگ کو کیوں نہ دیکھا جائے کہ وہ بھی صرف مشرقی پاکستان میں تھی۔ جیسے مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے پاس چند دانے تھے ویسے مشرقی پاکستان میں پیپلزپارٹی کے پاس بھی چند چہرے تھے۔
بھٹو سکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے عملی سیاست میں آئے بالکل درست ہے۔ ایوب خان کی حکومت میں بھی شامل ہوئے یہ بھی درست ہے وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے پاکستان اور باہر کی دنیا میں شہرت کمائی یہ ان کی ذاتی لیاقت تھی۔ بھٹو ایوب کی کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی تھے۔ ایوب خان سے الگ ہوئے تو ریاستی اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سارے ٹوڈی ان کے مخالف ہوگئے۔ ایوبی حکومت نے ان کے خلاف مقدمات بنائے انہیں گرفتار بھی کیا گیا ، وہ کبھی بھی گرفتاری سے بچنے کے لئے بیوی بچوں کو چھوڑ کر دیوار پھلانگ کر برہنہ پائوں نہیں بھاگے۔
انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی۔ بی ڈی ممبروں کے نظام کی جگہ ون مین ون ووٹ کے لئے جدوجہد کی۔ 1970ء کے انتخابات سے قبل ان کے خلاف 2فتوے جاری ہوئے
ایک فتویٰ مغربی پاکستان کے ملائوں نے دیا، سوشلزم کو کفر قرار دینے والا اس فتوے کو "ماڈریٹ اسلام” کی علمبردار جماعت اسلامی کی سیاسی و نظریاتی تائید حاصل تھی۔
دوسرا فتویٰ انتخابی عمل کے دوران 27علماء کا تھا ان میں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں حصوں کے علماء شامل تھے۔کہا گیا "پیپلزپارٹی کفریہ نظریات پر قائم ہے اسے ووٹ دینا کفر ہوگا” اس وقت کے مسیتڑ مولویوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈالنے پر نکاح ٹوٹنے کے فتوے بھی دیئے۔
ان انتخابات میں ریاست نے پرجوش مدد اور مالی تعاون اگر کسی جماعت سے کیا تو وہ جماعت اسلامی تھی یا قیوم لیگ۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ تھی قیوم لیگ اور جماعت اسلامی مغربی پاکستان میں پہلے نمبر پر ہوں گے۔ بھٹو کو مشکل سے 20نشستیں (قومی اسمبلی) ملیں گی۔
مشرقی پاکستان میں بھی ایجنسیوں کی پسندیدہ جماعتیں جماعت اسلامی اور مولوی فرید الدین کی نظام اسلام پارٹی تھی۔ نتیجہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں سے مختلف نکلا۔

ساعت بھر کے لئے رک کر یہ جان لیجئے کہ یہ وہی انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کی امریکہ نے مالی مدد کی تھی اور میاں طفیل محمد نے اس کا شکریہ ادا کیا دونوں باتوں پر خوب تماشے بھی لگے لیکن زیادہ تر اخبارات و جرائد پر رجعت پسندوں کا قبضہ تھا اس لئے کچھ ہی اخبارات و جرائد میں یہ خبر جگہ پاسکی ۔ امریکی امداد اور میاں طفیل محمد کے خط کی تفصیل سید علی جعفر زیدی نے اپنی سوانح عمری ( باہر جنگل اندر آگ ) میں تفصیل سے لکھی۔ ’’الفتح‘‘ والے ارشاد رائو سمیت اس وقت کے دوسرے ترقی پسند صحافیوں نے بھی اپنی تحریروں اور جرائد میں اس کا تذکرہ کیا۔
سقوط پاکستان کے بعد بھٹو کو اقتدار اسٹیبلشمنٹ نے خوشی سے نہیں دیا تھا بلکہ جی ایچ کیو میں جنرل ملک اور دوسرے بڑوں کے ساتھ جو سلوک نوجوان افسروں نے کیا اس سلوک سے گھبرائے جرنیلوں نے بھٹو کو اقتدار دیا
کیونکہ ان کا خیال تھا اگر بھٹو کو اقتدار نہیں دیتے تو برہم نوجوان فوجی افسر بغاوت پر اتر آئیں گے۔
یوں بھٹو اقتدار میں آئے۔ دستور بنا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، تیسری دنیا کا سیاسی تصور پیش ہوا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد اسی سیاسی تصور کا حصہ تھا۔ صنعتیں، مالیاتی ادارے، سکول کالجز قومی تحویل میں لئے گئے اور پاسپورٹ کا عام حصول ممکن ہوا۔ لاکھوں لوگ بیرون ملک روزگار کے حصول کے لئے گئے۔ سرکاری ملازمین کا نیا پے سکیل بنا۔ کاروبار زندگی بہتر ہوا۔
ایٹمی پروگرام کی وجہ سے ان کی امریکہ سے ٹھنی۔ ہنجر کسنجر کی دھمکی ریکارڈ پر ہے۔ بھٹو نے ستمبر 1976ء میں دوبار ملنے کے لئے آنے والے امریکی سفیر کو خطے میں امریکی اتحادی کے طور پر کردار ادا کرنے کی پیشکش کے جواب میں صاف سیدھا انکار کیا۔
پھر ان کے مخالفوں کا قومی اتحاد بنا۔ بنا کیا بنوایا گیا۔ خود مقامی و عالمی اسٹیبلشمنٹ اس کے پیچھے تھے۔
یقیناً اپنے سیاسی سفرمیں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں ان غلطیوں کے حوالے سے بھی لوگوں کی مختلف آرا ہیں۔
بعض ایٹمی پروگرام، کچھ آئین کی مذہبی شقوں اور چند نیشنلائزیشن کی پالیسی کو غلطی قرار دیتے ہیں۔ اس پر مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ طے ہوسکے کہ کیا واقعی یہ غلطیاں تھیں یا وقت کی ضرورت۔
دستور کے خیمے میں مذہب کے اونٹ کو بھٹو نے نہیں لابٹھایا تھا قرارداد مقاصد لیاقت علی خان کی ہمنوائی سے منظور ہوئی تھی۔

بھٹو صاحب کے مقابلہ میں جناب عمران خان نے ساڑھے تین پونے چار سال میں ایسا کیا کیا کہ امریکہ ان کا مخالف ہو؟ وہ ماضی میں ڈرون حملوں کے مخالف رہے یہ مہم ایک جرمن این جی او کی جانب سے سپانسر تھی۔
وہ کہتے ہیں میں نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا جبکہ عسکری حکام پارلیمانی ڈیفنس کمیٹی اور صحافیوں سے ملاقات میں دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے مرحلے میں مدد مانگی تھی جو فراہم کی گئی اڈے نہیں مانگے گئے۔
سو یہ موازنہ بنتا ہی نہیں۔ بھٹو بھٹو تھے اور عمران خان جو ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اپنے سوا ہر شخص کو چور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ ایک متنازعہ فیصلے پر "سادھو سنت” ہیں۔

پسِ نوشت
اور اب وہ اور ان کے ہمدرد مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں عمران خان کو محافظ حرمت رسولؐ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: