اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

موسیقی زندہ آباد||فضیل اشرف قیصرانی

روائتی طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ شخص جو علمِ موسیقی کی معراج پر ہو یا تو سازوں کی انتہائ قلیل تعداد کے ساتھ گائیکی کرتا ہے یا پھر پُر ہجوم آرکیسٹرا پر اپنی آواز کا دباؤ بناۓ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ہر صورت میں نمایاں گائیک کی آواز ہی رہتی ہے، ساز صرف سنگت کے فریضے کے طور پر ساتھ رہتے ہیں۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے سماج نے گزشتہ ہفتے کچھ بہت پیاری چیزوں کا تجربہ کیا۔سلیمانی و مکرانی بلوچی بمع تنبورہ اور ایوا بی کے کوک سٹوڈیو جا پہنچی ، رونگھڑ میں سلیمانی بلوچی کا شاندار مشاعرہ بعنون کوہ سلیمان کے درخت بچاؤ ہوا اور عالمی یومِ تعلیم پہ کوہ سلیمان، دامان اور دیگر بلوچ علاقوں میں تعلیم کے فقدان کی بابت ہمارے بچوں نے سرکار کے بہرے کانوں پہ ہتھوڑے نہ سہی مگر ہاتھ ضرور برساۓ۔
بلوچ کے ہاتھ پھر چاہے تنبورے کی تاروں پر ہوں، نڑ کے سوراخوں سے ہوا روکتی بلوچ کے ہاتھ کی اُنگلیاں ہوں یا پھر سرکار کےبہرے کانوں پر پڑتے بلوچ کے ہاتھ ہوں، یہ دستکار مزاحمتی ہاتھ جہاں مال کے پیچھے چھڑی اٹھاۓ بھاگنے سے چھلنی رہتے ہیں وہیں کھبی کشیدہ نکالتے سوئیاں چُھبنے سے زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔مگر اب کہ ان ہاتھوں کے سامنے مائیک اور ڈائس تھا۔یقین جانئیے کہ یہی مائیک اور ڈائس ڈھونڈتے بلوچ کی عمریں نکل گئیں اور آخرِ کار ضدی بلوچ انہیں پانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
سو ہمارے اِرتقا کے پیکیج کے ایک حصے کی تکمیل کا آغاز ان خوبصورت لمحات سے ہوا۔ایسے ہزار لمحوں کا مزید شدت سے انتظار اور یقیناً مزید محنت۔کوئ جا کر جنرل ڈائر کو بتاۓ کہ ڈر کے مارے جنرل ڈائر کی گاڑی کو ہاتھ نہ لگانے والا بلوچ آج بجلی پہ چلنے والے مائیک کو کھلونا سمجھ کے کھیل رہا ہے اور بلوچ آج بھی کھیل میں اُصول کے اُصول پر اسی طرح قائم ہے جیسے جنرل ڈائر کے بے اُصول زمانے میں تھا۔
اُصول زندہ آباد
موسیقی زندہ آباد
مشاعرہ زندہ آباد
یہ شاید الفاظ میں سمجھانا کافی مشکل ہو کہ بھلے موسیقی کے سات سر ہی رائج ہیں اور اِن سُروں کے تحت تھاٹ، راگ اور راگنیاں سُربکھیرتی ہیں مگر ہر علاقے کی موسیقی اِن سروں میں رہتے ہوۓ بھی اپنا رنگ الگ دے جاتی ہے۔مثلاً کافی کِسی سُر میں بھی گائ جاۓ، کافی کی لۓ اور لۓ کے تحت لیے گۓ پلٹے خالصتاً سرائیکی رنگ لیے ہوۓ ہوں گے جو سُن کاروں کو فوراً سے ہی محسوس ہو جائیں گے۔۔۔
اِسی طرح پشتو موسیقی کے لوگری رنگ میں ہارمیونیم اور طبلے کی اونچی سنگت ایک سی معلوم پڑے گی جبکہ یک تارے اور چمٹے پہ بجتے سُر اپنا پنجابی رنگ الگ سے سننے والوں کو محسوس ہو پائیں گے۔اِسکا سبب تو کوئ موسیقی کے اُستاد ہی بتا پائیں گے مگر موسیقی سے لُطف لینے والے ہم جیسوں کے لیے بحر حال ایک تحقیق طلب سوال یہ ضرور ہے کہ جب ہر گانے کی دھن الگ سے ترتیب پاتی ہے، کیا وجہ ہے کہ علاقائ رنگ دُھنوں پر غالب آ جاتا ہے؟
یہاں شاید احباب اِسکی وجہ آرکیسٹرا کو سمجھیں تو ایسا قطعاً نہیں ہے۔احمد نواز چھینہ نے سرائیکی گلوکاروں میں پہلی بار رُباب کا تعارف سرائیکی گائیکی میں کرایا ہے مگر پشتون ساز رباب پر دوران گائیکی ، گائیکی کا سرائیکی رنگ ہی غالب نظر آیا اور رباب نے بطور سنگت ہی علاقائ رنگ کا ساتھ دیا، اُسے دبا نہ پایا۔ایسے ہی یکتارا سندھ اور پنجاب میں ایک سا رائج ہے، مگر بجتے ہی رنگ الگ کر لیتا ہے۔ہارمونیم گو درآمدی اور جدید ساز ہے مگر پاکستان کے ہر علاقہ میں اُس پر اپنا رنگ غالب ہے۔اِس علاقائ رنگ کی تقسیم اور حد بندی اس قدر باریک ہے کہ “دامان” تک کی موسیقی کا رنگ پہاڑ اور بیٹ دونوں سے مُختلف ہے۔اِس کی ایک مثال رمضان بیوس کی دامانی گائیکی ہے، جو صرف دامان میں ہی رائج ہے۔
یہ غزل سنتے ہوۓ یوں ہی یہ بے سبب خیالات آپکی نظر۔موسیقی کا لُطف لیجئیے۔
نوٹ: مُصطفی خادم ، جِنہیں عزیز شاہد لفظوں کا مخدوم کہتے ہیں،کی یہ غزل احمد نواز چھینہ نے خُوب گائ ہے۔غزل سنئیے اور علاقائ رنگ سے دبتی رباب کی سنگت کا لُطف لیجئیے۔
موسیقی کے آلات ساز کہلاتے ہیں۔ان سازوں کا کام سُروں کو ساز کر کے دُھن کی تخلیق اور پھر گلوکار کی آواز کے ساتھ سنگت کا ہوتا ہے۔دف کے قبیل کے ساز چھوڑ کر سازوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
تار پہ بجنے والے ساز جیسے گِٹار
کی پہ بجنے والے ساز جیسے پیانو
اور
سانس کی مدد سے بجاۓ جانے والے ساز جیسے بانسری
روائتی طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ شخص جو علمِ موسیقی کی معراج پر ہو یا تو سازوں کی انتہائ قلیل تعداد کے ساتھ گائیکی کرتا ہے یا پھر پُر ہجوم آرکیسٹرا پر اپنی آواز کا دباؤ بناۓ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ہر صورت میں نمایاں گائیک کی آواز ہی رہتی ہے، ساز صرف سنگت کے فریضے کے طور پر ساتھ رہتے ہیں۔
ساز بجانے والے فنکار سازندے یا سازیگر کہلاتے ہیں اور اپنے فن میں عموماً یکتا ہی رہتے ہیں کہ موسیقی بحر حال علوم کی اونچی اکائیوں میں سے ایک ہے۔سازوں میں ساز تو برابر ہی ہوتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں سازوں کے مابین طبقاتی کشمکش بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ وہ ساز جو انسانی آواز کے قریب ترین ہو وہ افضل و اشرف ہے۔ہمارے ہاں انسانی آواز کے قریب ترین مانا جانے والا ساز سارنگی تھا/ہے جبکہ مغرب میں یہ مقام وائلن کو حاصل ہے۔
سارنگی اولاً تقریباً تمام استادوں کی سنگت میں رہتی تھی مگر اب کے مُدت ہوئ، سارنگی کی جگہ ہارمونیم نے لے لی۔ہمارے ہاں چونکہ موسیقی رو بہ زوال ہے اس لیے پاکستان میں اب گِنے چُنے سارنگی نواز رہ گۓ ہیں جنہوں نے اس فن کو زندہ رکھا ہوا ہے، وہ بھی بس اس حد تک کہ بزرگوں کی نشانی کے طور پر ساز بجتا رہے۔
سارنگی پہ اس پہر راگ باگیشری سنئیے اور سر دھنئیے۔

فضیل اشرف قیصرانی کی مزید تحریرں پڑھیں

%d bloggers like this: