مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیل کا شور||دانش ارائیں

وفاقی حکومت مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی ساری توانائیاں مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے اور دھمکیاں دینے میں لگا رہی ہے۔

دانش ارائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2018 میں ہونے والے بدترین دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے حکومت بنائی اور اپنے ایکشن سے پہلے کئیے گئے وعدوں کے برعکس حکومت کرنا شروع کر دی، گو کہ ملکی معیشت کے حالات سخت تھے لیکن موجودہ حکومت کی کارکردگی سراسر نااہلی اور غفلت ہے جس سے نہ صرف ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے بلکہ عوام کی روزی روٹی بھی چھین رہی ہے۔

وفاقی حکومت مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی ساری توانائیاں مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے اور دھمکیاں دینے میں لگا رہی ہے۔

6 جنوری 2022 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی ناکام اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا، اس کے بعد سے حکومت اور حکومت کے حمایت یافتہ میڈیا، صحافیوں اور حتیٰ کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی پیپلز پارٹی کا میڈیا ٹرائل اور کردار کشی شروع کر دی۔ ، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ “ڈیل” کرنے کا الزام لگایا۔ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری اس جارحیت کی واضح مثال ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں پیپلزپارٹی پر الزامات کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں مگر نتیجہ ہمیشہ یکسر مختلف آتا ہے۔

ان میں سے تین نمایاں ہیں:

1، جب جنرل ضیاء "فوجی آمر” نے 5 جولائی 1977 کو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک منتخب وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں بند کیا، اس وقت پیپلزپارٹی مخالف کتھوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کیا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو “ڈیل” کر کے ملک سے نکل جائینگے لیکن دوالفقار علی بھٹو نے “ڈیل” کر کے بھاگنے کے بجائے شہادت کو قبول کیا اور پھندے کو چوم لیا ۔

"سری لنکا کی سپریم اپیلیٹ کورٹ کے سابق جج، ڈبلیو راجارتنم نے اپنی کتاب "A judiciary in Crisis” میں لکھا، “اپیل کے دوران یا اس کے بعد بھٹو نے کبھی رحم کی درخواست نہیں کی۔ درحقیقت انہوں نے اپنے وکلاء اور اپنے خاندان کے افراد کو سختی سے ہدایت کی تھی کہ ایسی کوئی درخواست نہ دی جائے۔”

2، مشرف دور کے آخری سالوں میں اسی بھٹو مخالف ذہن کے لوگوں نے پیپلز پارٹی پر الزام لگایا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے ڈکٹیٹر سے ”ڈیل” کرلی۔ 27 مئی 2007 کو ارنب گوسوامی کے ساتھ ٹی وی انٹرویو میں شہید بے نظیر نے جنرل کے ساتھ بیک روم “ڈیل” کے خیال کو مسترد کر دیا، لیکن دشمنان بھٹو نے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا بند نہیں کیا اور دنیا نے مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی شہادت کا منظر دیکھا۔

"24 اکتوبر 2007 کو ڈان میں شائع ہونی والی خبر :’پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کو ایک دہشت گرد کی جانب سے قتل کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں جب کہ منگل کو یہ خبریں آئی تھیں کہ حکومت نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا ہے، جسے پیپلز پارٹی نے سنجیدہ لیا ہے”۔

3، پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے 1990 سے 2004 تک مختلف الزامات و ناکردہ گناہ کی پاداش میں 11 سال جیل میں گزارے لیکن انہیں کبھی عدالت سے سزا نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے آصف علی زرداری کو 2019 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا، سازشی مقدمات اور میڈیا ٹرائلز کا سامنا کرنا پڑا لیکن ملک چھوڑنے کے لیے اپنے مخالف کی طرح کبھی “ڈیل” نہیں کی۔

پیپلز پارٹی عوام کی جماعت ہے، ہمیشہ ظالم کے خلاف غریبوں کے ساتھ کھڑی ہونے یا اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی نہیں ڈرتی۔ عوام اور میڈیا کو پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کی ملک کے لیے دی گئی قربانیوں کا اعتراف کرنا ، خود کو پروپیگنڈے کا حصہ بننے سے روکناچاہئیے اور اس نااہل سیلکٹیڈ ٹولے کے خلاف جو طبل جنگ پیپلزپارٹی بجا چُکی ہے اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

دانش  ارائیں کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: