اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے||ظہور دھریجہ

یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان خود مالی بحران کا شکار ہے اس کے باوجود افغانستان کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے مگر اچھائی کا جواب اچھائی کی صورت میں سامنے نہیں آ رہا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کیچ واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے تربت کا دورہ کیا اور پورا دن فوجی جوانوں کے ساتھ گزارا ۔ آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے۔ بلوچستان میں کئی سالوں سے دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، دہشت گردی کا شکار سکیورٹی فورسز کے جوان بھی ہو رہے ہیں اور وسیب کے بہت سے مزدور بلوچستان میں دہشت گردی کا شکار ہوئے۔

مختلف واقعات میں دہشت گردی کا شکار ہونیوالے سرائیکی وسیب کے مزدورشہداء کو بھی انصاف ملنا چاہئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے اور افغانستان کی سرزمین کرزئی دور میں پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ، طالبان کی آمد پر حکومتی حلقوں کی طرف سے شادیانے بجائے گئے ، ہم نے انہی کالموں میں اُس وقت بھی تحفظات کا اظہار کیا اور جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ آہستہ آہستہ سامنے آتے جا رہے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے کیچ میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 10 جوانوں کی شہادت نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔بلوچستان میں بیرونی تعاون سے دہشتگردی میں ملوث گروپوں کی وارداتوں سے ہونے والا جانی نقصان پوری قوم کا دکھ ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ جب سکیورٹی فورسز دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں تو بعض عاقبت نا اندیش اسے غلط رنگ دے کر عوام کو گمراہ کرنے لگ جاتے ہیں ۔

دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی افغانستان سے ہمدردی پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردوں اور ان کے ہمنوائوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو منفی انداز میں پیش کر کے عوام اور ریاست میں دوریاں پیدا کرنے والوں کا کردار بھی قابل مذمت ہے ۔ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ بلوچستان میں قیام امن اور تعمیر و ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک عوام الناس اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ نہیں کھڑے ہوں گے ، سانحہ کیچ میں جام شہادت نوش کرنے والے اہلکاروں نے تو اپنی جانیںمادر وطن پر نچھاور کر دیں ، سوال یہ ہے کہ کیا محض قربانیوں کا اعتراف کافی ہے یا عملی اقدامات ضروری ہیں؟

گزشتہ روز قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے کہا تھا کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغانستان میں دہشت گردوں کے منظم نیٹ ورک کام کر رہے ہیں ، جنگ مسلط کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ یہ تمام کارروائیاں افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی شرائط پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ٹی ٹی پی کو پاک افغان سرحد پر لگی باڑ پر بھی اعتراض تھا۔

صورتحال خراب ہوئی تو قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کی سربراہی میں پاکستانی وفد افغانستان پہنچا ، افغان طالبان کی حکومت نے ملاقات پر یقین دہانی تو کرائی ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی مگر اس طرح کی یقین دہانیاں پہلے بھی بہت کرائی گئیں۔ آخر ہمیں افغان طالبان سے شکوہ کیوں نہیں کیا وہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار نہیں ہیں؟

دوہا معاہدہ کے مطابق افغان طالبان کا فرض ہے کہ وہ اپنی سرزمین کوپڑوسی ملکوں اور عالمی امن کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں ، اس ذمہ داری کی طرف انہیں متوجہ کیا جانا ضروری ہے، ثانیاً یہ کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران جو ناخوشگوار واقعات ہوئے بالخصوص سرحد سے باڑ اتارنے اور در اندازی کے ان واقعات میں افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کا طرز عمل تشویشناک رہا۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے آج بھی افغانستان میں قائم ہیں ، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان میں سے بعض تنظیموں نے افغان طالبان کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا تھا اس لئے وہ ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں ،

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ افغان طالبان کو نہ تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ ہی پڑوسیوں خصوصاً پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال ہونے پر فکر مندی۔ دوسری طرف شیخ رشید نے کہا تھا کہ طالبان سے شکوہ نہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کی مدد کی، اس مدد کا جو جواب ملا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، افغانستان پر طالبان کے قبضے کے معاملہ پر عالمی برادری کی اکثریت کی جو آراء ہیں ان سے صرف نظر کیا جانا مشکل ہے، ان آراء اور تحفظات کے باوجود انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جو بن پایا وہ کر چکنے پر بھی اگر جواب میں افغان عبوری حکومت نے دہشت گردوں کی ناز برداری کرنی ہے تو ہمیں بھی اپنے مفادات بارے میں سوچنا ہوگا۔

تاخیر کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر صورتحال کا تجزیہ اور افغان پالیسی کی از سر نو تشکیل از حد ضروری ہے۔ وزارت خارجہ و دیگر حکام کو افغان عبوری حکومت سے دو ٹوک انداز میں بات کرنا ہوگی، پچھلے چند ماہ کے دوران رونما ہوئے واقعات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لے کر اگر افغان طالبان کی قیادت سے بات کی گئی ہوتی تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی کچھ سوچنے کی زحمت کرتی ، یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ بعض سنگین واقعات میں ملوث تنظیموں کے کرداران کے سہولت کاروں سے آگاہی کے باوجود اس طور پر ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی ضرورت ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ شرپسند جس سرزمین سے در اندازی کرتے ہیں اس کے حکمرانوں سے بات کرنے میں امر مانع کیا ہے؟ جہاں تک دہشت گرد تنظیموں کے مقامی ہمدردوں اور سہولت کاروں کے پھر سے سرگرم ہونے کے معاملے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی یہ عرض کرنا لازم ہے کہ ان کے عضو معطل ہوجانے کی سوچ غلط فہمی پر مبنی تھی ۔ دہشت گرد تنظیموں کے مقامی ہمدرد اور سہولت کار کبھی بھی آرام سے نہیں بیٹھے، ان کی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں ۔

یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان خود مالی بحران کا شکار ہے اس کے باوجود افغانستان کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے مگر اچھائی کا جواب اچھائی کی صورت میں سامنے نہیں آ رہا ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: