مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسٹیٹ بینک بل، اپوزیشن پر تبرا کیوں؟ ||حیدر جاوید سید

مصدق ملک نے دروغ گوئی کیوں کی؟ وہ اور کیاکرے جماندرو طور پر پیپلز پارٹی کی نفرت کا شکار اس سینیٹر نے ہی یہ سماں باندھا کہ اگر گیلانی اجلاس میں ہوتے تو بل منظور نہ ہوپاتا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ جمعہ کو سینٹ کے اجلاس سے اپوزیشن کے کل 9 ارکان غیرحاضر تھے۔ ان 9میں سے ایک اسحق ڈار نے ابھی تک رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔ باقی کے 8 ارکان میں (ن) لیگ کے مشاہد حسین کورونا کا شکار ہیں۔ نزہت صادق بیرون ملک ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سکندر مندھیرو اپنے علاج کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں (اطلاع یہ ہے کہ انہیں کینسر ہے) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے شفیق ترین، جے یو آئی کے طلحہ محمود، بی این پی کے قاسم رونجھو اور محترمہ نسیمہ احسان بھی غیرحاضر تھے۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی ضلع مظفر گڑھ میں سابق رکن قومی اسمبلی نور ربانی کھر کی رسم سوئم میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ اپوزیشن کی حمایت کرنے والے دلاور گروپ کے دو سینیٹرز کے علاوہ خود حکمران اتحاد کے 2ارکان بھی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
جناب نوازشریف کے سابق ملازم اور (ن) لیگ کے حاضر سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک کا یہ کہنا ہی غلط ہے کہ گیلانی کی عدم موجودگی نے سٹیٹ بینک بل پاس کروادیا۔ اے این پی کے عمر فاروق گنتی کے وقت ایوان سے چلے جانے کی تردید کررہے ہیں۔ ان کی تردید درست یوں ہے کہ اگر وہ گنتی کے وقت ایوان میں نہ ہوتے تو پھر اپوزیشن ارکان کی تعداد 41 اور حکومتی ارکان کی 42 ہوتی اس طرح حکومت مزید آسانی سے کامیابی حاصل کرلیتی ایسا نہیں ہوا۔
سٹیٹ بینک بل کی منظوری کے لئے حکومت کے پاس 42ارکان اس صورت میں ہوئے کہ وہ اپنی ایک بیمار رکن زرقا تیمور کو وہیل چیئر پر آکسیجن سلنڈر سمیت اجلاس میں لے آئی۔
اب گنتی کے وقت حکومت اور اپوزیشن کا میچ برابر تھا دونوں کے پاس 42ارکان تھے اس مرحلہ پر چیئرمین سینیٹ حکومت کی مدد کو آگے بڑھے انہوں نے اپنا ووٹ حکومت کے حق میں کاسٹ کیا۔
بل 43 ووٹوں سے منظور ہوگیا۔ یہ تو تھی بل منظور ہونے کی روداد، اس کے باوجود اگرآپ نیزے بالے لے کر اپوزیشن کو چھیدنا چاہتے ہیں تو شوق سے لگے رہیں۔
آخر خود پیپلزپارٹی کا ایک سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر بھی تو حقائق کو مسخ کرکے آزادی اظہار کا ’’سپر ہیرو‘‘ بناہوا ہے۔ یہ سپر ہیرو اگلی بار (ن) لیگ میں ہوگا خیر چھوڑیے یہ ہمارا موضوع ہی نہیں ہے۔
مصدق ملک نے دروغ گوئی کیوں کی؟ وہ اور کیاکرے جماندرو طور پر پیپلز پارٹی کی نفرت کا شکار اس سینیٹر نے ہی یہ سماں باندھا کہ اگر گیلانی اجلاس میں ہوتے تو بل منظور نہ ہوپاتا۔
اب آیئے اس طرف جمعرات کو رات گیارہ بج کر 40منٹ تک سٹیٹ بینک بل سینیٹ کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں تھا اسی شب وزارت داخلہ کے ماتحت ایک ’’ادارے‘‘ نے وفاقی حکومت کو اپوزیشن ارکان کی اس تعداد سے آگاہ کیا جو جمعہ کو اجلاس میں شرکت کرسکتے ہیں اس کے ساتھ ان ارکان کی تعداد سے بھی جو اجلاس میں اپنی مصروفیات، علالت اور دوسری وجوہات کی بنا پر شریک نہیں ہوں گے۔
یہ کہ اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کی رسم سوئم میں شرکت کیوجہ سے اجلاس میں نہیں آسکیں گے۔
اس رپورٹ کے بعد حکومت نے حکمت عملی ترتیب دی اور رات گئے سینیٹ کے اگلے روز کے اجلاس کے ایجنڈے میں سٹیٹ بینک بل کے مسودے کوشامل کروالیا گیا
یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ اگر مصدق ملک کی بات کو آسمانی صحیفہ مان لیاجائے تو عین ممکن ہے کہ حکومت سینیٹ سے بل منظور نہ کراپاتی اس طور کیا حکومت آرام فرماتی؟
جی نہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ ہنگامی اجلاس کا نوٹیفکیشن تیار تھا، حکومت ہر صورت میں سوموار کو مشترکہ اجلاس بلواکر بل پاس کروالیتی۔ مشترکہ ایوان میں حکومت کو عددی برتری حاصل ہے اور یہ برتری اپوزیشن کی سوفیصد حاضری کے باوجود برقرار رہتی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ خود پی ڈی ایم کے جو 6 ارکان غیر حاضر تھے (ان میں اسحق ڈار شامل نہیں) ان میں سے مشاہد حسین کورونا کا شکار ہیں اور نزہت صادق کینیڈا میں ہیں باقی کے 4 ارکان غیرحاضر کیوں تھے۔ مصدق ملک فارمولہ کو درست مان لیا جائے تو پھر یہ 4ارکان بھی حکومت کے لئے سہولت کار ہی بنے ایسا ہے تو نزلہ صرف گیلانی پر کیوں؟
کیا مصدق ملک اپنی جماعت کے اعظم نذیر تارڑ کی میڈیا سے گفتگو نہیں سن پائے تھے یا انہوں نے وہی بات کرنی تھی جو مریم نواز نے ان سے کہی؟
اگلی بات یہ ہے کہ آخر حکومت جمعہ کو ہی بہرصورت بل منظور کروانے کے لئے اتاولی کیوں ہوئی؟ اس کی دو وجوہات تھیں اولاً یہ کہ حکومت جانتی تھی کہ اگر معاملہ ہفتہ (اس دن عموماً اجلاس نہیں ہوتا) یا سوموار پر ملتوی ہا تو اپوزیشن اپنی عددی تعداد پوری کرلے گی
اس صورت میں حکومت کے پاس واحد راستہ مشترکہ اجلاس میں بل منظور کروانے کے سوا نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور چیئرمین کے درمیان اس بل پر جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ہم آہنگی بنالی گئی تھی۔
چیئرمین سینیٹ سے تین حکومتی نمائندوں نے ان کی اقامات گاہ پر ملاقات کی اور طریقہ کار طے کرلیا گیا۔
جمعہ کو جب حکومت نے اسٹیٹ بینک بل سینیٹ میں پیش کیا پہلے مرحلہ میں اس کے پاس ووٹ پورے نہیں تھے۔ اپوزیشن کہہ رہی تھی بل متعلقہ کمیٹی سے بھیجا جائے۔ اس پر ایوان میں بحث ہو ، حکومت نے چیئرمین کے تعاون سے اپوزیشن کے دونوں اعتراضات یا تجاویز کہہ لیجئے کو مسترد کروادیا۔
وجہ حکومت اور چیئرمین دونوں جانتے تھے۔ حکومت کے لئے بل کی منظوری زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ آئی ایم ایف کے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کے ایک ارب ڈالر کی قسط اس بل سے مشروط تھی۔
یہاں ستم یہ ہے کہ اعدادوشمار کے حساب اور دوسری باتوں کو نظرانداز کرکے صرف اپوزیشن پر تبصرے اور تبرے کئے جارہے ہیں اور مصدق ملک جیسے مریم نواز کے سپاہی ملبہ گیلانی پر گرارہے ہیں اس کی سُر سے سُر خود پیپلزپارٹی کا سینیٹر مصطفی نواز ملارہا ہے۔
اسلام آباد کے ’’حلقہ ہائے شب و روز‘‘ بخوبی واقف ہیں کہ یہ تین پرانے ذاتی دوست ہیں ہم نوالہ و ہم پیالہ۔ مصطفی نواز، مصدق ملک اور شبلی فراز۔ اس بات کو الگ سے اٹھارکھئے۔
فرض کیا گیلانی نے سنگین قومی جرم کیا وہ اجلاس میں نہیں پہنچے تو پی ڈی ایم کے ایک بیمار رکن کے علاوہ باقی کے ارکان کیسے آسکر ایوارڈ کے حقدار ہوگئے اجلاس میں شریک نہ ہوکر؟معاملات کو ان کے منطقی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کو سینیٹ نے جو اسٹیٹ بینک بل منظور کیا اس کی کسی بھی وقت دوبارہ سادہ اکثریت سے دونوں ایوانوں میں منسوخی ہوسکتی ہے۔
ایک اخبار نویس کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بل درست منظور ہوا۔ اب ریاست کا امتحان شروع ہوگا اولاً "وہ” بھی کینڈے میں آئیں گے جن کی مالیات کا کوئی حساب نہیں۔
فقیر راحموں کے بقول بے لگام مالیات کا۔
اب نجی لشکر رکھنے پالنے ہی ناممکن نہیں ہوجائیں گے بلکہ بہت سے ٹیکس معاف کاروباروں کی مجموعی بچت کے سرمائے اسٹیٹ بینک کے اکائونٹس میں رکھنا پڑیں گے۔
اخراجات اور آمدنی کا اب ریکارڈ بنے گا۔ یہ تو ہے ذاتی خوشی لیکن اگر مجموعی ملکی مفاد میں دیکھا جائے تو سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے خود کو حب الوطنی کی معراج پر کھڑا ساڑھے تین سال سے ثابت کرنے والوں نے پاکستان کی معلوم و غیرمعلوم معیشت دونوں کی گردنیں آئی ایم ایف کو پکڑوادی ہیں۔
باقی رہے نام اللہ کا۔
ہاں اب بھی اگر جی چاے تو آیئے سب مل کر اپوزیشن پر تبروں کی توپوں کو کھول دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: