بہرحال عظیم مملکت کے واحد صادق اور امین رہنما کو عوام کے 70 برسوں کے خوابوں کا محور بنا کر یوں پیش کیا گیا کہ گویا یہ مسیحا قوم کے ہر زخم پر مرہم رکھے گا۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ محض تین برسوں میں 22 سالہ ’جدوجہد‘ کی کہانی میں یہ موڑ بھی آئے گا جو کپتان کے اس وقت سامنے ہے۔
عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برسوں سے یہ جملے سُنتے آ رہے ہیں کہ حکمرانوں کے دن گنے جا چُکے ہیں۔۔۔ حکومت کو رخصت کر کے ہی دم لیں گے۔۔۔ حکومت لانگ مارچ سے پہلے ہی دُم دبا کر بھاگے گی۔۔۔ وزیراعظم! آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ عوام کا سمندر آپ سے استعفیٰ لے گا۔۔۔
پھر پاکستان کی سیاست بدل گئی یا یوں کہیے کہ انداز بدل گیا، حکومتیں بنانے کے طریقہ کار بدل گئے، روایتی دھاندلیوں کی جگہ منظم تبدیلیوں نے لے لی مگر نہیں بدلی تو کسی بھی دور کی اپوزیشن نہیں بدلی۔
ایک وقت وہ بھی تھا کہ کوئی اپوزیشن جماعت لانگ مارچ کا اعلان کرتی تھی تو اقتدار میں موجود جماعت کو واقعی لالے پڑ جاتے تھے۔
وجہ صاف ظاہر تھی، سیاسی جماعتیں ازلی مقتدر حلقوں کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوتیں، کبھی اشارے اور کبھی فقط کنایے کو ہی عافیت سمجھتیں مگر عوام کے مزاج کی بھی کسی حد تک ترجمان ہوتیں۔ سو مقتدر حلقے تبدیلی کی راہ ہموار کرتے اور یوں ایک ’منظم تبدیلی‘ میسر آ جاتی۔
آخری تبدیلی یا ’جرنیلی سڑک کا انقلاب‘ جنرل کیانی کے دور میں آیا۔ اُس وقت کی تحریک انصاف یعنی ن لیگ نے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دباؤ بڑھانے کے واسطے پیپلز پارٹی کے ہی وکیل رہنما چوہدری اعتزاز احسن کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔
گوجرانوالہ کے مقام پر جناب جنرل کیانی کی درخواست پر لانگ مارچ کا نتیجہ برآمد ہوا اور احتجاج کامیاب ہونے کی نوید سُنائی گئی، یوں جی ٹی روڈ کا انقلاب واپس لاہور مُڑ گیا۔
عمران خان کا لانگ مارچ وہ واحد لانگ مارچ تھا جو مقتدر حلقوں کی مبینہ آشیرباد کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا۔ شاید سابقہ سیاسی جماعتوں نے وقت کی چکی میں پس کر کچھ سیکھ لیا تھا یا پھر خان صاحب کے ہاتھ ایمپائر تک نہ پہنچ سکے اور نہ ہی 126 دن کا دھرنا، جلاؤ، گھیراؤ کام آ سکے اور یوں ڈی چوک پر ٹینٹ لپیٹنا پڑے۔
اب ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کی خبریں ہیں۔ اس بار لانگ مارچ محض ضد ہے یا واقعی انقلاب براستہ موٹروے آ رہا ہے؟ اس لانگ مارچ کا فائدہ پیپلز پارٹی اٹھائے گی یا مولانا کے دھرنے کی طرح فائدہ کوئی اور لے جائے گا؟
اہم تعیناتیوں سے قبل یہ مارچ کسی کی سہولت کاری کرے گا یا پھر کچھ اور؟ بلاول صاحب کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ کے ساتھ ہی خان صاحب گھر چلے جائیں گے مگر کیسے۔۔۔ یہ معلوم نہیں؟
ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی مارچ کی 23 کو رمضان سے ایک ہفتہ قبل مولانا اور ن لیگ لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں اسی دعوے کے ساتھ کہ خان صاحب گھر کی راہ لیں گے۔ ورنہ؟؟؟ اس ورنہ کے آگے کیا ہے کسی کو معلوم نہیں۔
متحدہ اپوزیشن قومی اسمبلی میں کوئی چمتکار دکھا سکتی ہے یا نہیں یہ سوال میڈیا پر ہر روز دہرایا جاتا ہے تاہم اُس کے لیے نواز شریف کو اپنی جماعت یا شاید شہباز شریف پر اعتماد کرنا ہو گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔ ن لیگ کی ساری سیاست مقدمات کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔
ابھی سینیٹ میں اکثریت اقلیت میں بدل گئی جبکہ جن کے سر پہلے الزام تھا اب اُن کا فیض بھی نہیں پھر یہ اعجاز کس کا ہے کہ دن دیہاڑے اے این پی کے حاضر سینیٹر بھرے ایوان میں لاپتہ ہو جاتے ہیں، جبکہ ایک نہیں سات سینٹرز سرے سے اتنے اہم اجلاس میں آتے ہی نہیں۔
سینیٹ کے دلاور خان گروپ کے سینٹرز بیٹھتے تو اپوزیشن نشستوں پر ہیں مگر ان کے دل مسلسل حکومت کے ساتھ دھڑک رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بیچ سینٹرز کا یہ ٹولہ اپوزیشن پر بوجھ ہے یا اپوزیشن کا خوف ان کے وزن پر ہے یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا۔
سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت اقلیت میں بدل چکی ہے جبکہ اپوزیشن ایوان بالا میں اعتماد کھو چکی ہے لہذا اپوزیشن کو بوریا بستر لپیٹ لینا چاہیے۔
مگر سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کا دعویٰ کرنے والی حزب اختلاف قومی اسمبلی کی اقلیت کو اکثریت میں کیسے بدلے گی اس بارے میں سیاسی پنڈت بہرحال خاموش ہیں۔
ن لیگ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود آشیرباد کی منتظر ہے۔ میاں صاحب ’اشاروں پر تبدیلی کا کیا فائدہ‘ کے بظاہر اصولی مؤقف جبکہ اندرونی طور پر مریم نواز کی سیاست کی فال نکلوانے پر بضد ہیں۔ جماعت صرف خاندانی لڑائی میں الجھ رہی ہے یا اس بات کی منتظر ہے کہ اہم تعیناتیوں کا مرحلہ خود عمران خان ہی کریں اور بھگتیں۔۔
27 فروری بھی گزر جائے گی اور 23 مارچ بھی، اس کے بعد بھی یہی نعرے ہوں گے اور یہی سیٹ اپ، اور رہ جائیں گے وہ عوام جو حکومت کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ لہذا اپوزیشن کو اپنی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی عوام کا اعتماد کھو دیں اور ان کے دن بھی گنے جا چُکے ہوں۔
یہ بھی پڑھیے
سکھر تے بکھر دِی کتھا“(وسیب یاترا :18)||سعید خاور
”””عشق ٻاجھوں جیوݨ کوڑ کہاݨی “ (وسیب یاترا :17)||سعید خاور
”خیرپور تے ہیرا منڈی لہور دا سانگا“(وسیب یاترا :16)||سعید خاور