اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کا بلدیاتی نظام اور اس سے منسلک تنازع کیا ہے!||عثمان غازی

گو ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہیں تاہم بلدیاتی نمائندوں کی اسمبلیوں کے اختیارات میں اس حد تک توسیع کردی گئی ہے کہ شعبہ صحت، شعبہ تعلیم اور شعبہ امن و عامہ بلدیاتی اسمبلیوں کو جوابدہ ہوں گے، ہر دو ہفتے میں اسکول کا ہیڈماسٹر بلدیاتی نمائندوں کی مقامی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا،

عثمان غازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ کا بلدیاتی قانون مقامی حکومتوں کا ایک ایسا نظام ہے جس میں بلدیاتی نمائندوں کو جو اختیارات دئیے گئے ہیں، اس کی نظیر پورے ملک میں کہیں نہیں ملتی۔
جیسے سندھ کی بلدیاتی حکومتیں غیرمنقولہ جائیداد کی منتقلی پر ٹیکس تک وصول کرسکتی ہیں، ٹیکس کی وصولی کا اختیار پاکستان کے بیشتر صوبوں کی بلدیاتی حکومتوں کے پاس نہیں ہے، اس اختیار سے بلدیاتی ادارے خود مختار ہوں گے، انہیں مدد کے لئے سندھ حکومت کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا، مالیاتی خودمختاری سے وہ اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد ہوں گے۔
پہلے کے بلدیاتی نظام میں عوام کونسلرز اور چیئرمینز منتخب کرتے تھے جو آگے جاکر میئر کا انتخاب کرتے تھے، عوام کو اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کا میئر کون ہوگا، ہارس ٹریڈنگ جیسے معاملات کی وجہ سے اکثریت اقلیت میں بدل جاتی تھی تاہم اب ایسا نہیں ہوگا، سندھ کے عوام براہ راست اپنا میئر منتخب کرسکیں گے، اسی طرح ہر طبقے کو نمائندگی دینے کے لئے خصوصی افراد اور خواجہ سراؤں کی نشستیں بھی رکھی گئیں ہیں تاکہ سماج کا کوئی طبقہ نظرانداز نہ ہو۔
سندھ کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ شہروں کو ٹاؤنز کی صورت میں تقسیم کیا جائے، اس سے مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل میں بڑی مدد ملتی ہے اور سندھ کے موجودہ بلدیاتی نظام میں یہ مطالبہ تسلیم کیا گیا، موجودہ نظام میں ٹاؤنز کے اعتبار سے بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
سندھ کے بلدیاتی نظام میں وزیر بلدیات کے برابر میئر کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا شریک سربراہ بنایا گیا ہے، اس سے پہلے میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا وائس چیئرمین ہوتا تھا، اسی طرح کونسلز کے میئر سندھ سولڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے سربراہ ہوں گے، یہانتکہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کا اہم ترین محکمہ بھی سندھ حکومت نے بلدیاتی حکومت کے حوالے کردیا ہے۔
اب اگر سندھ کا بلدیاتی نظام اتنا بہترین ہے تو تنازع کس بات پر ہے، یہ سمجھنا آپ کا بنیادی حق ہے۔
سندھ حکومت نے شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت کے وہ چند ادارے جو بلدیاتی حکومت کے تحت آتے تھے، ان کو اپنی نگرانی میں لے لیا، جس پر ایم کیوایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پی ایس پی نے احتجاج کرنا شروع کردیا، سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ چند اسکول اور چند اسپتال خصوصی مہارت کے شعبے ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے ساتھ کام کرنے والے سندھ کے محکمہ صحت و تعلیم کو دیکھنا چاہئیے تاہم کراچی کی مقامی سیاسی جماعتیں اس معاملے کو کراچی پر قبضے کے مترادف گرادنتی ہیں اور یہ بات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔
اگر سندھ کی مقامی سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ بلدیاتی نظام کے تحت گنتی کے چند اسکول اور چند تعلیمی ادارے مقامی حکومتوں کی نگرانی سے نکلیں تو یہ مطالبہ ان کے اعتبار سے جائز ہے تاہم اس جائز مطالبے پر عمل درآمد کے لئے سندھ اسمبلی میں ترمیم پیش کرنا ہوگی تاکہ اس مطالبے پر ایوان غور کرے، جب بلدیاتی نظام پیش ہورہا تھا تو اسی وقت یہ ترمیم کروالی جاتی تو اتنے احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی۔
دوسری بات یہ کہ سندھ حکومت نے ایک منتخب بلدیاتی نمائندے کی حدود میں آنے والے تمام اسپتالوں، اسکولوں، تھانوں سمیت کھیل، زراعت سمیت دیگر شعبوں سے باز پرس کے اختیارات تک بلدیاتی نمائندے کو دے دئیے ہیں!!
جی ہاں۔۔۔
گو ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہیں تاہم بلدیاتی نمائندوں کی اسمبلیوں کے اختیارات میں اس حد تک توسیع کردی گئی ہے کہ شعبہ صحت، شعبہ تعلیم اور شعبہ امن و عامہ بلدیاتی اسمبلیوں کو جوابدہ ہوں گے، ہر دو ہفتے میں اسکول کا ہیڈماسٹر بلدیاتی نمائندوں کی مقامی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا، بنیادی صحت کے مراکز بھی ہر دو ہفتے میں رپورٹ اپنی بلدیاتی کونسلز میں جمع کروانے کے پابند ہوں گے، مقامی تھانے بھی اپنی اپنی کونسلز میں قیام امن کی صورت حال پر ہر دو ہفتے میں رپورٹ جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔
اب اگر تھانے دار سے لے کر ہیڈ ماسٹر اور اسپتال کے ایم ایس تک سب بلدیاتی نمائندوں کو جواب دہ ہوں گے تو اس سے بڑھ کر کیا اختیارات ہوسکتے ہیں!!
جس معاملے پر احتجاج کیا جارہا ہے، وہ اتنا سیدھا معاملہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اپنا میئر منتخب کروائیں جو اگلے دن آکر ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے یہ دوچار اسکول اور ایک دو اسپتال واپس بلدیاتی نظام میں لے آئے، بے وجہ احتجاج میں نشانہ وہ نہیں جو شاید نظر آرہا ہے۔
کیا پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بلدیاتی نمائندگان کو ایسے اختیارات ملے؟ وہاں تو الٹا ان سے اختیارات چھین کر انہیں غیرفعال کیا جارہا ہے اور اس استحصال پر کوئی آواز اٹھانے والا تک نہیں۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جب پاکستان پیپلزپارٹی نے مہنگائی کی ذمہ دار حکومت کے خلاف اپنے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں نے کراچی میں احتجاج کا شوشہ چھوڑ دیا تاکہ عوام کی توجہ کو تقسیم کیا جاسکے ۔۔ اگر ایسا ہے تو یہ عوام کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے۔
اسی طرح اگر مسترد کردہ سیاسی جماعتیں سندھ کے بلدیاتی نظام سے متعلق مسلسل جھوٹ بول کر عوام میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہیں تو یہ طریقہ کسی طور بھی درست نہیں، تعمیری سیاست کریں، تخریب تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔
ذرا تصور کریں کہ کراچی کے ان مقامی احمق سیاست دانوں نے اگر سندھ کے موجودہ بلدیاتی نظام کو مکمل مسترد کردیا اور سندھ حکومت نے اسے مان لیا تو گزشتہ بلدیاتی نظام کے تحت ہونے والے اگلے بلدیاتی انتخابات میں یہ خود کہاں اور کن اختیارات کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔۔

یہ بھی پڑھیے:

عورت مارچ کی منزل||عثمان غازی

پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی

عثمان غازی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: