اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی

یہ مطالعہ پاکستان کی واضح شکست ہے، چالیس برسوں سے جو گھول کر پلائی جارہی ہے، آج کے نوجوان نے اس جعلی تاریخ کو مسترد کردیا ہے۔

بڑی سیدھی سی بات ہے کہ محمد بن قاسم اس بنو امیہ کا نمائندہ تھا کہ جس نے نواسہ رسول کو کربلا میں شہید کرکے اپنی سلطنت کی بنیادیں مستحکم کیں ۔۔

محمد بن قاسم کوئی صحابی نہیں تھا بلکہ 18 برس کا ایک چھوکرا تھا جسے کعبے پر لشکر کشی کرنے والے حجاج بن یوسف کی سرپرستی حاصل تھی ۔۔ وہ حجاج بن یوسف جو صحابہ اکرام کا قاتل تھا۔

اسلامی تاریخ میں محمد بن قاسم کے حوالے سے کوئی مستند تفصیلات نہیں، اگر وہ کوئی ہیرو ٹائپ بندہ ہوتا تو کسی دور میں تو اس پر کچھ لکھا جاتا اور اس کی اسی مبہم شخصیت کا دورِ حاضر کے فتنہ گروں نے فائدہ اٹھایا، جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلی بار محمد بن قاسم کو نصابی کتابوں کے ذریعے ہیرو ڈیکلئیر کیا گیا۔

میرا ٹھٹھہ کے قریب شہر بھنبھور جانے کا اتفاق ہوا ہے جہاں اسلامی تاریخ کی اولین مسجد موجود ہے، یہ ظہور اسلام کے ابتدائی 50 برسوں میں قائم ہوئی، اس مسجد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سندھ میں اسلام کی آمد کا ذریعہ محمد بن قاسم نہیں بلکہ صحابہ تھے گویا باب الاسلام والی تھیوری محض ڈھکوسلا ہے۔

ذاتی اعتبار سے مجھے راجہ داہر کو ہیرو کہنے میں تامل ہے کیونکہ وہ ایک بادشاہ (آمر) تھا تاہم اس ضمن میں میرے دوست قاضی آصف سے ایک مکالمہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ راجہ داہر کو بطور بادشاہ پسند نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اس لئے پسند کیا جاتا ہے کہ اس نے مدینے کی ان مظلوم عورتوں کو پناہ دی، جو بنو امیہ کے ظلم سے بچتی ہوئی سندھ آئیں اور انہی مسلمان عورتوں کے قتل اور اغواء کے لئے محمد بن قاسم حملہ آور ہوا تھا۔

چھج نامہ کے صفحہ 242 سے 243 پر لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے راجہ داہر کی صاحبزادیوں پرمل دیوی اور سریا دیوی کو خلیفہ ولید بن عبدالملک کو بطور تحفہ پیش کیا، سریا دیوی راجہ داہر کی بڑی صاحبزادی تھیں، خلیفہ کی نیت ان پر خراب ہوگئی تاہم جب سریا دیوی نے بتایا کہ محمد بن قاسم تو پہلے ہی ان کا ریپ کرچکا ہے تو ولید بن عبدالملک نے محمد بن قاسم کو گدھے کی کھال میں لپٹوا کر دمشق منگوایا اور راستے میں یہ حملہ آور عبرت ناک موت کا شکار ہوگیا۔

تیکنکی طور پر پاکستان کو عرب دنیا سے مطالبہ کرنا چاہئیے کہ وہ ان کی بیٹیوں کے اغوا پر معافی مانگے مگر عجیب بات ہے کہ بیٹیوں کے اغوا کار کو ہیرو بنایا جارہا ہے، عرب دنیا کو چاہئیے کہ وہ بنو امیہ کے جرائم کے خلاف ڈٹ کر عرب بیٹیوں کی حفاظت کرنے والے راجہ داہر کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پاکستان سے اظہار تشکر کرے۔

بہرحال سوشل میڈیا پر محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے حوالے سے مباحثہ خوش آئند ہے، یہ مطالعہ پاکستان کی واضح شکست ہے، چالیس برسوں سے جو گھول کر پلائی جارہی ہے، آج کے نوجوان نے اس جعلی تاریخ کو مسترد کردیا ہے۔

%d bloggers like this: