اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹانک شہر اور کمہارن کا عجیب قصہ ۔۔ ۔۔۔||گلزار احمد

ٹانک سے ایک محترمہ بنت سرائیکی کے نام سے میری فیس بک لسٹ میں شامل تھی جو بڑی جرات سے ٹانک کے حقوق کی پوسٹیں لگاتی تھی مگر کافی دنوں سے نظر نہیں آ رہی شاید وہاں کی صحافی تھی۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تقریبا” 65 کلومیٹر شمال مغرب میں ایک ہستا بستا تجارتی شھر ہے۔اس کو پشتو میں ٹک بھی کہتے ہیں جس کا مطلب باونڈری یا لکیر کے ہیں کیونکہ مختلف قبائل کی سرحد پر واقع ہے۔
ایک انگریز ہربرٹ ایڈورڈز جو 1848ء میں انگریزوں کے قبضے کے بعد یہاں آیا اس نے شھر کی تاریخ بڑی دلچسپ بیان کی۔وہ لکھتا ہے کہ ٹانک دراصل لوہانی قبیلے کی دولت خیل شاخ کی چراگاہ تھی۔دولت خیل کے مزید چھوٹے قبیلے تھے۔ان میں ایک قبیلے کٹی خیل کا سردار زمان خان وہاں کا خاندانی سردار
تھا۔اس وقت ٹاک کا شھر موجودہ شھر سے تین کوس دور واقع تھا جو بعد میں ٹاک کہنہ کہلایا ۔
زمان خان کٹی خیل کے ایک بیٹے قتال خان کٹی خیل نے پرانے ٹانک شھر سے پانچ چھ کارکن خاندانوں جن میں زیادہ کمھار شامل تھے ساتھ لے کر ہجرت کی اور موجودہ ٹانک میں سرور خان کی حویلی کے قریب رہنے لگا۔
ایک دن ایک کمھارن نے آ کر قتال خان سے شکایت کی کہ جب وہ دریا پر پانی بھرنے باہر گئی تو پرانے ٹانک سے چور اس کا خچر چھین لے گیے۔ کمھارن نے قتال خان سے کہا میں اور میرا شوھر آپکی دعوت پر اس لیے یہاں آپکے ساتھ آ گیے کہ آپ ہماری حفاظت کرینگے مگر چور ہمارا خچر لے گیے۔ قتال خان کو سخت غصہ آیا اور اس نے قسم کھائ کہ وہ اس وقت تک نہ کچھ کھائے گا نہ پئے گا جب تک چوروں سے بدلہ نہ لے لے۔چنانچہ وہ چند آدمیوں کو لے کر پرانے ٹاک گیا اور چوروں کو ہلاک کر کےخچر واپس لا کر کمھارن کے حوالے کیا۔
جب پرانے ٹانک کے لوگوں نے دیکھا کہ قتال خان تو اپنے باپ سے بھی زیادہ دلیر اور انصاف والا بندہ ہے وہ بہت متاثر ہوئے اور بڑی تعداد میں لوگ نئے ٹانک آ کے آباد ہونے لگے۔پہلے پہل کتھری ذات کے ہندوں کے 100 دکاندار اپنی دکانیں یہاں لے آئے اور پھر مسلمانوں اور ہندووں کے ایک ھزار خاندان نئے ٹانک آباد ہو گئے۔
یوں موجوہ ٹانک یا ٹک افغانستان اور پنجاب کے درمیان تجارت کا سنگ میل بن گیا۔
اس قصے میں کچھ دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔
1۔ یہاں کی خواتین بڑی جراتمند اور جفا کش ہیں۔ قتال خان کے پاس کمھارن خود گئی اس کا خاوند نہیں گیا اور کمھارن نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر دیا۔
ٹانک سے ایک محترمہ بنت سرائیکی کے نام سے میری فیس بک لسٹ میں شامل تھی جو بڑی جرات سے ٹانک کے حقوق کی پوسٹیں لگاتی تھی مگر کافی دنوں سے نظر نہیں آ رہی شاید وہاں کی صحافی تھی۔
2۔ ٹانک اور ڈیرہ میں ایک چیز مشترکہ ہے کہ پرانا ڈیرہ بھی 1823ء کے دریا سندھ کے سیلاب میں ڈوب گیا اور اب نئی جگہ آباد ہے۔ اسی طرح ٹانک بھی نئی جگہ آباد ہے اور پرانے ٹانک کے آثار باقی ہیں یا نہیں مجھے کمنٹس میں پتہ چلے گا۔

%d bloggers like this: