اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایک بج چکا ہے۔ دو بجے ہمیں ڈیپارٹمنٹ مینیجمنٹ بورڈ کی میٹنگ میں پہنچنا ہے۔ پانی اور چائے کی طلب ”چہاس“ میں بدل چکی ہے۔ کچھ مریض بھی ابھی باقی ہیں۔ ہماری آواز اب کچھ دھیمی پڑ چکی ہے۔ قصی بھی مزید پڑھنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”آخر اتنی بہت سی کہانیاں کہاں سے مل جاتی ہیں آپ کو؟“
”یہ دوپہر کے بعد آپ کی لو اتنی دھیمی کیوں پڑ جاتی ہے؟“

بار بار پوچھے جانے والے دو سوال جو آپس میں مربوط بھی ہیں، تقاضا کرتے ہیں کہ ایک دن جیو کے ساتھ کی طرز پہ ہم آپ کو پورا دن تو نہیں لیکن آدھے دن کی جھلک دکھانے کی کوشش کر ہی لیں۔

صبح خیز ہونے کے ناتے دن کا آغاز بہت جلد ہو جاتا ہے۔ کبھی ہم بیڈ ٹی کو چونچلوں میں شمار کیا کرتے تھے لیکن اب اس کے بنا صبح پھیکی نظر آتی ہے اگر چہ چائے ہم پھیکی ہی پیتے ہیں۔ بیڈ ٹی کے ساتھ اگر سات سمندر پار دل کے ٹکڑوں سے کانفرنس کال کر لی جائے تو زندگی اور بھی حسین نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔

ارے اس سب میں سات بج گئے، لیجیے گھر چھوڑنے کا وقت ہوا۔ ہسپتال پہنچنے کے ساتھ ہی مارننگ میٹنگ کا آغاز ہے۔

پچھلے چوبیس گھنٹے میں کتنے مریض داخل ہوئے، کتنوں کے آپریشن ہوئے، کس کس کے ساتھ کیا پیچیدگی ہوئی، نومولود کی صحت کیسی تھی، ابھی کتنے مریض زچگی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پچھلی ٹیم سب کا احوال سنا رہی ہے اور سارے کنسلٹنٹس بیچ بیچ میں سوال اٹھاتے جاتے ہیں۔ یہ ان ڈاکٹرز کی تربیت کا حصہ ہے جو سپیشلائز کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

انہی میں سے ایک ڈاکٹر ہر دوسرے دن کسی نہ کسی موضوع پہ بحث کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور آج کی بحث کا موضوع ہے، پچھلے ماہ میں زچگی کے آخری مرحلے میں ہونے والے سیزیرین کی وجوہات کا جائزہ۔ ایک ایک کیس کی تفصیل پاور پوائنٹ کی مدد سے بتائی جا رہی ہے اور ان نقاط پہ غور کیا جا رہا ہے جن کو بہتر بنانا مقصود ہے۔

میٹنگ سے ہمیں او پی ڈی پہنچنا ہے جہاں مریض ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ آج ہماری ٹیم میں ایک ساتھی کنسلٹنٹ، ایک سینیئر سپیشلسٹ، دو سپیشلسٹ، تین تربیتی ڈاکٹرز اور دو میڈیکل افسر شامل ہیں اور ہم نے اپنے مریضوں کے علاوہ ان کے دیکھے جانے والوں مریضوں کی جانچ بھی کرنی ہے تاکہ غلطی کا احتمال کم سے کم ہو۔

ہیڈ نرس ہمیں آ کر بتاتی ہے کہ آج اپائنٹمنٹس معمول سے زیادہ ہیں۔ اللہ مالک ہے، ہم مسکرا کر اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں ہماری بہت ہی پھرتیلی نرس اور ایک تربیتی ڈاکٹر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔

سلطان قابوس یونیورسٹی کا یہ ڈاکٹر ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والا ہے بس دو ماہ ہی باقی ہیں۔ ہمارے ساتھ اس کا آج پہلا دن ہے۔ ہم اس سے نام پوچھتے ہیں اس کے جواب دینے پر ہمیں سمجھ نہیں آتا، وہ پھر دوہراتا ہے۔ ہم اس سے فرمائش کرتے ہیں کہ کسی کاغذ پہ عربی ہجوں میں اپنا نام لکھ دے۔

”قصی“ وہ لکھتا ہے،
”قصی بن کلاب؟“ ہم مسکرا کر کہتے ہیں۔
”آپ کیسے جانتی ہیں؟“ وہ حیران ہو کر پوچھتا ہے۔
”ارے بھئی اسلامی تاریخ۔ ۔ ۔“

باتیں کرنے کے دوران پہلی مریض کمرے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہم قصی کو ہسٹری لینے کا کہتے ہوئے مریض کے کاغذات چیک کرتے ہیں۔

چھٹے حمل کا آٹھواں مہینہ چل رہا ہے اور وہ سو کلومیٹر دور ایک مضافاتی ہسپتال سے بھیجی گئی ہے کہ بچے کے اردگرد کا پانی بہت زیادہ ہے اگرچہ مریضہ کو شوگر نہیں۔ ہماری نرس اسے معائنہ ٹیبل پہ لٹاتی ہے۔ ہم اس کا پیٹ دیکھتے ہوئے قصی کے متعلق اجازت چاہتے ہیں کہ پردوں سے ڈھکی ٹیبل کے اندر وہ بھی آ سکے۔ وہ شد و مد سے انکار میں سر ہلاتی ہے۔ انکار یا اقرار اس کا حق ہے اور ہمیں اس کے حق سے کوئی انکار نہیں اگر چہ سرکاری ہسپتال کی پالیسی انکار کو سپورٹ نہیں کرتی۔

ہم مریضہ کو الٹرا ساؤنڈ کے لئے بھجوا دیتے ہیں اور قصی سے کہتے ہیں کہ وہ بچے کے گرد زیادہ پانی ہونے کے اسباب کتاب سے یا گوگل کی مدد سے ڈھونڈے، اور ہم سے ڈسکس کرے۔

انگلیوں پہ اسباب گنوانا ہمارے لئے کہیں زیادہ سہل ہے لیکن ہم کچھ بھی چمچ بھر کر طلب علم کے منہ میں نہیں ڈالنا چاہتے چاہے اس کی قیمت ہمیں خود کیوں نہ ادا کرنی پڑے، اپنی توانائی کی صورت میں۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ بہترین علم وہ ہے جو سوال جواب کی صورت سیکھا جائے۔

اگلی مریضہ کا تعلق ناراض اور غصہ ور مریضوں کے قبیلے سے ہے۔ وہ بیٹھتے ساتھ ہی شکایات کا ایک پلندا کھول لیتی ہے جن کا تعلق پچھلی زچگی میں ہونے والے واقعات سے تھا۔ اونچی آواز میں وہ تیز تیز بول رہی ہے،

” میں نے نو گھنٹے درد زہ برداشت کیا اور آخر میں میرا آپریشن ہو گیا۔ اس میں بھی بھی میرا خون زیادہ بہہ گیا، بچے کو نکالنے میں بھی مشکل ہوئی۔ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ بچہ نیچے آ چکا تھا لیکن پھر اسے واپس دھکیلا گیا اور سیزیرین کر کے نکالا گیا۔ ڈاکٹر ہوتے ہی نالائق ہیں، سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے، پتہ نہیں کیا مریضوں سے کھیلتے رہتے ہیں“

ہم تیزی سے کمپیوٹر پہ گزشتہ واقعات پڑھتے ہیں، اس اثنا میں ہماری نرس اس کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

ہم تفصیلات پڑھ چکے ہیں اور اب اس کی توپوں سے داغے گولوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم اسے سمجھاتے ہیں کہ ”بچے کا وزن ساڑھے چار کلو تھا، اور اس کا سر نیچے نہیں آ رہا تھا، دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی، اس لئے سیزیرین کیا گیا اور بلاشبہ یہ ایک مشکل سیزیرین تھا“

”جس طرح تم بتا رہی ہو اس طرح ان ڈاکٹروں نے کیوں نہیں سمجھایا“ وہ تند لہجے میں پوچھتی ہے۔

دل تھوڑا سا گھمنڈی تو ہوا لیکن ہم نے کریڈٹ لینے کی بجائے بتایا کہ ”ایمرجنسی میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹرز پہ کام، مشکل فیصلوں، ماں اور بچے کی جان کی ذمہ داری کا بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی، بنا نیند اور خالی پیٹ کے ساتھ ڈھیروں ایمرجنسی مریض دیکھنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ ہو سکتا ہے جس وقت تم درد زہ میں رہی ہو، اسی وقت کئی اور مریض بھی مختلف مسائل کے ساتھ موجود ہوں۔ کسی کا بخار نہ اتر رہا ہو، کسی کے بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہو، کسی کا خون تیزی سے بہہ رہا ہو، کسی کا سیزیرین ہو رہا ہو، کسی کو ہائی بلڈ پریشر سے دورے پڑ رہے ہوں، کسی کا بلڈ شوگر لیول خطرناک سطح پہ پہنچ چکا ہو۔

یاد رکھو کہ شام اور رات کو کسی بھی بڑے ہسپتال میں محض پانچ ڈاکٹرز کی ٹیم ان سب مریضوں کو سنبھالتی ہے۔ چھوٹے ہسپتالوں میں اس سے بھی کم اور پرائیویٹ کا تو مت ہی پوچھو۔

تم کہہ سکتی ہو کہ یہ سب کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ بھی ٹھیک ہے لیکن یہ کام جس طرح اعصاب کو متاثر کرتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اگر ایک عورت بھی زچگی میں دم توڑ جائے تو ڈیوٹی پہ موجود ڈاکٹرز کے لئے نہ صرف بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے بلکہ بقیہ زندگی کے لئے بھی اسے بھولنا مشکل ہو جاتا ہے“۔

کیسے بتاتے اسے کہ ان مریضوں کے نام دل کی تختی پر ہمیشہ کے لئے کندہ ہو جاتے ہیں اور ان کے چہرے بھلائے نہیں بھولتے۔

ہیڈ نرس ہمارے کمرے میں داخل ہوتی ہے، معذرت کرتے ہوئے کہ ایک اسی سالہ مریضہ جس کی اپائنٹمنٹ کل تھی، غلطی سے آج آ گئی ہے، بتائیے کیا کیا جائے؟ ٹیم دیکھے گی یا کل آنے کے لئے کہا جائے؟

کلینک میں بہت رش ہے لیکن بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہمارا جواب اثبات میں ہے۔ کسی جونئیر کو دکھا دیجیے، اگر کوئی مسئلہ ہوا تو مجھ سے پوچھ لیجیے گا۔

ہیڈ نرس کے جاتے ہی ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر داخل ہوتی ہیں،
” مجھے پوچھنا ہے کہ ایک شوگر کی مریضہ بچے کی حرکت کم ہونے کی شکایت کر رہی ہے، اگر چہ الٹرا ساؤنڈ پہ بچہ حرکت کرتا نظر آتا ہے“

”اگر نو ماہ پورے ہو چکے ہیں تو داخل کر کے مصنوعی درد لگوا کر بچہ پیدا کروائیے“ ہمارا جواب۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد ہم چہرہ پھر مریض کی طرف موڑتے ہیں۔ اب اسے وزن کم نہ ہونے کی شکایت ہے۔
”دیکھیے نا میں بہت کوشش کرتی ہوں لیکن یہ 151 کلو سے کم ہوتا ہی نہیں“

”آپ ایسا کیجیے، تین ماہ کے لئے ابلی سبزیاں کھائیے، صرف ابلی سبزیاں اور کچھ نہیں، ساتھ میں سادہ پانی۔ اگر تین ماہ میں وزن کم نہ ہو تو ہمارا نام بدل دیجیے گا“
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے، موسم بدل چکا ہے۔ ہم اس کی دوا لکھتے ہیں اور وہ رخصت ہو جاتی ہے۔

ہم قصی سے اس مریضہ کی غصے میں آمد اور مسکراہٹ کے ساتھ رخصتی پہ اس کا خیال پوچھتے ہیں۔ جس پہ وہ مسکراتے ہوئے وہی کہتا ہے جو بہت سے لوگ کہتے ہیں۔ اب اپنے منہ سے کیسے بتائیں آپ کو۔

فون کی گھنٹی بج رہی ہے، ہماری انتہائی زیرک فارماسسٹ کو ایک مریضہ کے لئے لکھی گئی دوا کی مقدار پہ اعتراض ہے۔ ہم اسے اپنا پوائنٹ آف ویو سمجھاتے ہیں جس پہ وہ دوا دینے کے لئے راضی ہو جاتی ہے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ شاید وہ ابھی بھی کنونس نہیں ہوئی لیکن ہماری رائے اور ذمہ داری کا احترام کر رہی ہے۔

اگلا مریض آ چکا ہے۔ لیجیے واٹس ایپ پہ نسیم آپا کا صوتی پیغام بھی آ چکا ہے۔ یہ بتا دیں کہ کیا پکاؤں؟ آپ کا کل کا پہنا لباس دھوؤں کہ نہیں؟ اے سی مکینک کو بھجوا دیں کہ میرے کمرے کا اے سی ٹھنڈا نہیں کر رہا۔ مالی آج بھی نہیں آیا۔
ایک ہی سانس میں اتنی اطلاعات و شکایات کا پلندا پا کر ہم ٹھنڈا سانس بھرتے ہیں، یہ نسیم آپا بھی بس۔

اب ہمیں چائے کی طلب ہو رہی ہے۔ ہم قصی سے ہسٹری لینے کا کہتے ہیں اور خود چائے بنانے ٹی روم کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اب یہ پاکستان تو ہے نہیں کہ گھنٹی بجائی جائے اور کوئی آپ کے سامنے گرما گرم بھاپ چھوڑتی چائے سامنے رکھ دے۔

گرم کیتلی سے ابھی پانی پیالی میں انڈیل ہی رہے ہیں کہ ہیڈ نرس پھر سے آ جاتی ہے،
”معذرت لیکن مجھے ایک مریض کی میڈیکل رپورٹ کے بارے میں جاننا ہے کہ لکھی گئی کہ نہیں؟ وہ بار بار فون کر کے پوچھ رہی ہے“

گرم گرم چائے حلق میں انڈیل کر ہم اٹھ کھڑے ہوئے، کمپیوٹر پہ جا کے چیک کیا تو علم ہوا کہ متعلقہ ڈاکٹر نے ابھی تک مکمل نہیں کی۔ اب ان ڈاکٹر کو فون کرنا تھا۔

فون رکھا ہی تھا کہ گھنٹی پھر بج اٹھی۔ لیبارٹری سے فون تھا جہاں وہ ایک آپریشن کے بعد حاصل ہونے والے مواد کے بارے میں ہمیں مطلع کرنا چاہتے تھے کہ رپورٹ تسلی بخش نہیں ہے۔ ہسٹو پتھالوجسٹ چاہتی تھیں کہ ہم کمپیوٹر پہ رپورٹ جلد از جلد پڑھ لیں تاکہ لائحہ عمل طے کر سکیں۔

فون سے نبٹ کے قصی کی طرف متوجہ ہوئے جو مریض کی ہسٹری لینے کے بعد ہماری توجہ کے منتظر تھے۔ مریضہ جو کہ خود نرس تھی، ساتویں حمل سے گزر رہی تھی لیکن ایک بھی نو مہینے تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ وہ ایک ایسی بیماری کا شکار تھی جس میں جسم میں کچھ خاص کیمیکلز کی کمی اسقاط حمل یا پیٹ میں بچے کی موت کا باعث بنتی ہے۔

مریضہ کا چھٹا مہینہ چل رہا تھا اور امید و بیم کی سی کیفیت چہرے سے عیاں تھی۔ الٹرا ساؤنڈ پہ دور سے آنے والے مسافر کو ہم نے دیکھا، بہت سی دوائیں لکھیں اور ساتھ میں امید کی ڈوری بھی مریضہ کے ہاتھ میں تھما دی۔ یہی تو سنگلاخ رستوں میں زاد راہ بنتی ہے۔

اگلے مریض کو دیکھنے سے پہلے فون کی گھنٹی پھر بج اٹھی۔ پاکستان سے فون تھا لیکن اتنا مصروف کلینک جو ہمیں سر کھجانے کی فرصت نہیں دیتا تھا، ہم فون کیسے اٹھاتے۔ خیر تھوڑی ہی دیر میں صوتی پیغام خبر لایا تھا کہ ہمارے اقربا میں ایک حاملہ بچی کو ہماری رائے کی ضرورت تھی۔ جواب ریکارڈ کر کے بھجوانے کے ساتھ ہی اگلی مریضہ داخل ہوئی۔

دس برس کے بعد ٹونز بچوں کی آمد پہ قصی ہسٹری لیتے پرجوش نظر آتے تھے۔ ہم ہلکا سا مسکرا دیے۔ زندگی میں آگہی کے موڑ طبعیت میں سرخوشی تو لایا ہی کرتے ہیں۔

جڑواں یا توام بچوں میں آنول مشترکہ یا علیحدہ ہونے کے کیا نقصانات اور فوائد ہیں، ایسے بچوں کو کب پیدا کروا لینا چاہیے اور زچگی طبعی ہو یا سیزیرین، قصی کو یہ سب بتاتے ہوئے ہم نے مریضہ کی طرف دیکھا جو بہت اشتیاق سے اپنی کہانی سن رہی تھی۔ دس برس کے بعد ماں بننے کا اشتیاق اور غرور اس کے چہرے سے چھلک رہا تھا۔ مریضہ کا الٹراساؤنڈ کرتے دو بچوں کا کھیل کود قصی کے لئے قابل دید تھا۔

ابھی ٹونز کی اماں رخصت نہیں ہوئیں تھیں کہ ایک اور ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوئیں، ڈاکٹر طاہرہ آپ نے اگلے آپریشن تھیٹر پہ آنے والے مریضوں کی لسٹ دیکھی؟
”نہیں، ابھی وقت نہیں ملا“
”مریض زیادہ ہیں اور اس دن بے ہوشی کے ڈاکٹرز کی شارٹیج ہے۔ ہم اتنے بہت سے آپریشن نہیں کر سکیں گے“

” ایسا کریں ارجنٹ والوں کو شیڈول کر لیجئیے اور باقیوں کو فون کر کے اگلی تاریخ دے دیجئیے“
”آپ کو علم ہے نا کہ مریض کب سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی برہمی سہنا پڑتی ہے بہت بار“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ کرونا میں بے ہوشی کے ڈاکٹرز کا کام بڑھ گیا ہے، انہیں آرام سے سمجھا دیجیے گا“

لیجیے جناب اس بحث میں اگلی مریضہ تشریف لا چکی تھیں اور قصی ان کی ہسٹری لینے کے بعد ان کی شوگر کا احوال دیکھنے میں مصروف تھے۔

شوگر ٹھہری ہمارا پسندیدہ موضوع کہ ہم نے Leicester university سے اسے باقاعدہ پڑھا ہے۔ اب ہمیں اگلے آدھے گھنٹہ لیکچر دینے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔

مختلف مشروبات، روٹی، چاول، فروٹس کیسے جسم کے اندرونی نظام کو ناکارہ بناتے ہوئے آپ کو شوگر کا مریض بناتے ہیں، بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ بد قسمتی سے مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیا کے لوگوں کی جینز میں یہ بیماری داخل ہو چکی ہے سو اب صرف موٹاپے سے دور رہ کر اور ورزش کے ساتھ ہی اس موذی سے بچا جا سکتا ہے۔

ایک بج چکا ہے۔ دو بجے ہمیں ڈیپارٹمنٹ مینیجمنٹ بورڈ کی میٹنگ میں پہنچنا ہے۔ پانی اور چائے کی طلب ”چہاس“ میں بدل چکی ہے۔ کچھ مریض بھی ابھی باقی ہیں۔ ہماری آواز اب کچھ دھیمی پڑ چکی ہے۔ قصی بھی مزید پڑھنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہا۔

ہماری شعلہ نوائی سے بھی تپش کم ہو چکی۔ اب بجھتی ہوئی راکھ میں اتنا ہی دم ہے کہ میٹنگ بھگتا کر چار بجے تک گھر پہنچیں اور کسی گوشے میں بیٹھ کر سوچیں، کہ شاید فیض کا کوئی دن بھی ایسا ہی گزرا ہو گا۔

گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: