مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرندوں کو مرنے سے بچایا جائے(2)||ظہور دھریجہ

1983 میں پشاور میں ایک سمپوزیم تلور کی بقاء کیلئے منعقد ہوا ۔ سمپوزیم میں شرکاء نے جنرل ضیا الحق سے مطالبہ کیا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو بھی تلور کے شکار کی اجازت نہ دی جائے ۔ جنرل ضیاء نے اس پر قطعا توجہ نہ دی ۔

شکاریوں نے چولستان میں تلور کے شکار کیلئے زون بنارکھے ہیں ۔ ہر زون میں شکاری فوج کے سپاہیوں کی طرح چوکس و کمر بستہ رہتے ہیں ، وائرلیس اور موبائل کے ذریعے ایک دوسرے کو تلور کی آمد ، پرواز اور سمت سفر کی اطلاع دی جاتی ہے ۔ پھر شکاری لشکر حرکت میں آ جاتے ہیں اور تلور کو شکار کیلئے تربیت یافتہ باز چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ تلور بہت اونچی پرواز کرتا ہے اور باز بھی تلور سے جنگ کیلئے بہت اوپر چلا جاتا ہے ۔
تلور باز کو شکست دینے کیلئے سائنسی حربے بھی استعمال کرتا ہے اور پانا زہریلا سیال مادہ اس پر پھینکے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باز اندھا ہو کر گر پڑے ، اگر اس میں تلور کامیاب نہ ہو سکے تو پھر تلور اور باز کی باقاعدہ جنگ ہوتی ہے، پلٹنے جھپٹنے کے ان داؤ پیچ اور چنگی حربوں کو دور بینوں کے ذریعے دولت مند شکاری بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں اور اگر تلور کے پنجوں کا داؤ چل جائے تو باز نیچے آ گرتا ہے اور اگر باز تلور کو شکار کر لے تو ایسے سمجھیں جیسے اسرائیل فتح ہو گیا ،
پھر جشن ہوتا ہے اور ایک آدھ کلو تلور کا گوشت جو لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں میں پڑتا ہے ، بڑے شوق سے بھون کر کھایا جاتا ہے۔ یہ عیاشیاں مسلم دنیا کے زوال کا باعث ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے تلور کے شکار پر 1972 سے پابندی ہے ، کوئی پاکستانی تلور کا شکار نہیں کھیل سکتا، البتہ غیرملکی عرب شکاریوں کو تلور کے شکار کیلئے خصوصی پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں تلور معدوم ہو گیا اور سائبریا سے اس کی آمد کا سلسلہ کم ہو گیا ۔
1983 میں پشاور میں ایک سمپوزیم تلور کی بقاء کیلئے منعقد ہوا ۔ سمپوزیم میں شرکاء نے جنرل ضیا الحق سے مطالبہ کیا کہ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کو بھی تلور کے شکار کی اجازت نہ دی جائے ۔ جنرل ضیاء نے اس پر قطعا توجہ نہ دی ۔
جنرل ضیا کے بعد پی پی حکومت نے بھی ہماری عرضداشتوں پر توجہ نہیں دی ، ایک غیر ملکی تنظیم ’’ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ‘‘ تلور کی نسل معدوم ہونے سے بچانے کیلئے ایک عرصے سے کام کر رہی ہے ، اس تنظیم کے صدر ’’ پرنس فلپ ‘‘ کئی سال پہلے مختلف سربراہان مملکت کو یاداشتیں روانہ کیں جس میں تلور کے شکار پر پابندی کی اپیل کی گئی، ان کی اپیل پر ایران ، تیونس ، مصر اور لیبیا نے پابندی عائد کر دی مگر مراکش، الجزائر اور پاکستان نے ایسا نہیں کیا۔ حالانکہ اس اہم مسئلے پر ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایٹمی تباہ کاریوں ، کیمیائی اسلحے کے استعمال ، زرعی ادویات کی وبا ، کارخانوں کے زہریلے دھویں سے خصوصاً جنگلوں اور درختوں کے اتلاف کے نتیجے میں صرف جنگلی حیات ہی نہیں موسم بھی تبدیل ہو رہے ہیں ۔ موسموں کی تبدیلی سے صرف زمین ہی متاثر نہیں ہو رہی بلکہ زیر زمین دنیا بھی تغیرات کا شکار ہے ، زیر زمین پانی آلودہ ، کڑوہ اور خراب ہو رہا ہے اور پانی کا لیول گرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی پلیٹیں ہلنے سے زلزلے بھی آ رہے ہیں ۔
یہ تمام صورتحال آنے والے وقتوں کیلئے نہایت ہی تباہ کن خطرات کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ آج یورپ ، امریکا کو جنگوں اور انسانی تباہ کاریوں کی بجائے انسانیت اور کائنات کی بقاء کیلئے دولت خرچ کرنے کی ضرورت اور اس طرح عرب کے مسلم دولت مند ملکوں کو پرندوں کے شکار پر دولت ضائع کرنے کی بجائے ان چرند پرند اور زمین کے جمادات و نباتات کی افزائش پر دولت خرچ کرنا چاہئے۔
بصورت دیگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ زمین ہی نہ رہی تو پھر شکار کہاں سے آئے گا ؟ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ پرندے اس کائنات کا حسن ہیں ، ان کی چہچہاہٹ ہماری سانسوں اور ہمارے اپنے دل و دماغ کی تازگی ہے اور ان کی بقا در اصل ہماری اپنی ہی زندگی ہے ۔
ان پرندوں کو خدارا کہیں جانے نہ دیں اور انہیں مرنے نہ دیں ، احمد فراز نے سچ کہا :۔ پیڑ اسی احساس سے مر جاتے ہیں سارے پرندے ہجرت کرجاتے ہیں راہ گیروں کی آوازوں کو غور سے سن یوں ہے جیسے ماتم کر جاتے ہیں سرائیکی وسیب کے ان پرندوں کو مانوسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کونج سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ، بچے ، بوڑھے ، جوان غول در غول آنیوالی کونجوں کا استقبال کرتے ہیں ، سب کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں اور سب ملکر کونجوں کو سرائیکی میں صدا دیتے ہیں ’’ کونجا ڑی کونجاں سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو‘‘ یہ آواز اور یہ التجا سنتے ہی کونجوں کے غول دیرہ غازی خان میں مدفن حضرت سخی سرور کے نام پر پھیرے مارنا شروع کر دیتے ہیں ،
ہم آج ان مہمان پرندوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں ؟ یہ سوچتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عرب مہمانوں نے چولستان کے بعد سرائیکی وسیب کے اہم ڈویژن دیرہ غازی خان کا بھی رخ کر لیا ہے اور وہاں بھی پرندوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو’’ مال ‘‘ مل رہا ہے ، وہ شکاریوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ وہ یہاں رفاہی کام کرتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی دھرتی انا اور غیرت کے بدلے کچھ نہیں چاہئے ۔ خدارا وسیب کو ہر طرح کے شکاریوں سے بچایا جائے ۔ اشرف شریف نے بات تحقیق کے حوالے سے شروع کی تھی تو یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان پاکستان کا وسیع اور خوبصورت صحرا ہے۔ اس کے بہت سے اضلاع آتے ہیں ، لیکن صحرا کا سب سے بڑا حصہ سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان پر مشتمل ہے ۔ یہ صحرا قدیم وادی ہاکڑہ کا اہم حصہ ہے ، جس پر مزید تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ صحرا کے آثار کو بچانے اور اس پر تحقیق اور ریسرچ کرنے کی بجائے شکاریوں نے اس کے حسن کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے ۔
پاکستانی شکاریوں کے علاوہ چولستان پر سب سے بڑا عرب شکاریوں نے کیا اور اس صحراء کے قیمتی جانورون اور پرندوں کو ختم کر کے رکھ دیا ۔ چولستان کی قدامت بارے ابن حنیف لکھتے ہیں کہ ’’قدیم تہذیبی و تمدنی آثار کے حوالے سے وسیب میں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت بہاولپور کے علاقے چولستان کو حاصل ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز یہی خطہ ہے اور اسے سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین کا نام دیا گیا ہے ۔(ختم شد)

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: