مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محاسبے کا دن ۔۔۔||گلزار احمد

میں نے ابھی ذکر کیا کہ زندگی کسی کے لیے بھی موٹر وے نہیں ۔جگہ جگہ رکاوٹوں کے سرخ سگنل تھے لیکن یہ یقین تھا کہ جلد یہ سبز بتی میں تبدیل ہونگے اور ہم آگے بڑھ جائینگے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا یوم پیدائش 12 دسمبر ہے اور ہر سال اس دن میں اسے یوم محاسبہ کے طور پر مناتا ہوں ۔سب سے پہلی بات تو اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے بےحد خوبصورت زندگی دے کر یہاں تک پہنچایا ۔اچھی صحت سے نوازا تعلیم کی روشنی سے آراستہ کیا اور نیک لوگوں کی تربیت سے پروان چڑھتا رہا ۔ اس موقع پر والدین کے لیے بھی دعائیں نکلتی ہیں کہ انہوں نے بے زری اور مشکلات کے باوجود میری تعلیم و تربیت اور مجھے خوش و خرم رکھنے میں ہر قسم کی قربانی دی ۔اللہ پاک ان کی قبور کو روشن کرے آمین ۔
ہر شخص کی سالگرہ کے دو پہلو سامنے آتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ ؎گَردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی یعنی ایک زندگی کا سال کم ہو گیا دوسرا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ شکر الحمد للہ کہ باری تعالی نے ایک اور سال پورا کرنے کی مہلت عطا کر دی ۔ اب اس سارے قصے میں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں سالگرہ کے دن کوہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی کے اوپر کھڑا ہوں ایک طرف دور تک مجھے اپنا ماضی نظر آ رہا ہے وہ دریا وہ جنگل وہ سرخ و سبز بتیاں وہ چاند اور چاندنی وہ اٹھیکیاں کھاتی دریا اور سمندر کی لہریں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں جن کو عبور کرکے میں یہاں پہنچ گیا ۔پہاڑ کے دوسری طرف بھی دور تک سبزہ زار اورپھلوں پھولوں سے لدے باغات ہیں سرسراتی نسیم صبا ہے شفق کی سرخ و سپید روشنی ہے اور صاف و شفاف چشمے ہیں جنہیں ابھی عبور کرنا ہے۔ اب آپ سوچیں گے کہ میرے دل و دماغ میں یہ clarity کیسےاور کہاں سے پیدا ہوئی ؟
یہ سب اللہ سبحانہ تعالی کی مہربانی اور اعلی کردار دانشور اساتذہ والدین اور دوستوں کی صحبت اور فیض سے حاصل ہوا۔ زندگی میں قدم قدم پر آپ کو سرخ سگنل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سبز بتی ہونے کا انتظار بھی۔ سب سے پہلی رکاوٹ جو پیدا ہوتی ہے وہ گھر کے ماحول اور پھر کم علم لوگوں کی صحبت سے پیدا ہوتی ہے ۔ بچے کو شروع دن سے معاشرے میں یہ ذھن نشین کرایا جاتا ہے کہ تو غریب ہے ؟ تجھے پڑھنے سے کیا فاعدہ ہو گا ؟جا کر کھیتوں میں کام کر ۔اگر سکول جاٶ تو ہر غلطی پر اساتذہ کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔تو نالائق ہے ۔کند ذھن ہے تو یہ کام نہیں کرسکتا۔ جب انسان کےاندر یہ یقین پیدا کر دیا جاے کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتا تو اس کا جسم و دماغ شل ہو جاتا ہے اور حقیقی زندگی میں وہ کوئ بڑا کام نہیں کر سکتا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ میری ماں اور باپ دونوں ہر موقع پر مجھے کہتے کہ تو یہ کام کر سکتا ہے اور میرے اندر حوصلہ اور اعتماد بڑھتا گیا۔ میں چھوٹا سا تھا میرا باپ مجھے گھر کے قریب دریاے سندھ کے پانی میں لے جاکر کہنے لگا تو تیر سکتا ہے بس اس طرح ہاتھ پیر چلانے ہیں اور میں نے جلد تیرنا سیکھ لیا۔ وہ ایک ائیر گن لے آیا ۔لطیفہ یہ ہے اس ائیر گن پر DIANA کا نام
لکھا ہوا تھا اور میں اسے ڈیانا کہتا تھا ۔بہت عرصے بعد شھزادی لیڈی ڈیانا کا نام ہمارے سامنے آیا۔ باپ نے ریت کی ڈھیری بنائی اور اس پر مجھے نشانہ بازی سکھائی اور میں بہترین نشانہ باز بن گیا۔ریت کی ڈھیری اس لیے کہ اس میں بندوق کے کےچھرے ضائع نہیں ہوتے اور واپس صحیح سالم مل جاتے تھے۔اسی طرح میرے باپ نے مجھے اپنی سائیکل اس وقت چلانا سکھا دی جب میں بمشکل قینچی سے چلا سکتا تھا اور گدی سے پیڈل تک پاٶں نہیں پہنچتے تھے اور پھر مجھے انگلینڈ کی بنی Religh سائیکل گفٹ کر دی۔
میری ماں نے مجھے تختی پر لکھنا اور ابتدائی کتابیں پڑھنا پیار سے سکھایا ۔خوش قسمتی سے اس کے پاس بچوں کے رسائل جمع تھے جن کو پڑھ کر وہ مجھے کہانیاں سناتی ۔البتہ میری ماں میرے کپڑے صاف ستھرے رکھنےچپلی پالش کرنے دانتوں کو صاف رکھنے پر بہت زور دیتی تھی اور سختی کرتی تھی حالانکہ ہمیں دانت صاف کرنے کے لیے کبھی موساگ کبھی کوئیلوں کا پاوڈر اور کبھی کیکر کی مسواگ ملتی تھی۔ موساگ یا دنداسہ دراصل منہ میں سرخی پیدا کر دیتا ہے اور زیادہ تر عورتیں استعمال کرتی ہیں مگر اس وقت ہم استعمال کر لیتے تھے۔ خواجہ غلام فرید کا سرائیکی شعر ہے ؎
موساگ ملیندی دا گزر گیا ڈینھ سارا ۔ ویس کریندی دا گزر گیا ڈینھ سارا۔۔
میں نے ابھی ذکر کیا کہ زندگی کسی کے لیے بھی موٹر وے نہیں ۔جگہ جگہ رکاوٹوں کے سرخ سگنل تھے لیکن یہ یقین تھا کہ جلد یہ سبز بتی میں تبدیل ہونگے اور ہم آگے بڑھ جائینگے۔
میں نے ڈیرہ ۔ملتان سے ہوتے ہوے مسلم لیگ ہائی سکول لاھور سے اعلی نمبروں میں میٹرک پاس کر لیا۔ڈیرہ کے ڈگری کالج نمبر ایک سے گریجوایشن اور گومل یونیورسٹی سے جرنلزم میں پوسٹ گریجوایشن مکمل کی۔ ریڈیو پاکستان میں سب ایڈیٹر کی سروس سے ابتدا کی اور ڈائیرکٹر نیوز تک چلا گیا۔پاکستان کے کئی شھر اور غیرملکوں گھوما پھرا۔
گزشتہ سال کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا تو اس سال یکم جنوری میں میری پہلی کتاب ۔دامان رنگ ۔ اور نومبر میں دوسری کتاب ۔پارو ۔۔چھپ کے مارکیٹ آ گئی۔
بہرحال میں نے زندگی سے دو اہم سبق سیکھے ہیں ایک تو یہ کہ
زندگی کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم یا تو اس کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے یا پھر اتنے سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ باقی تمام معاملات ایک طرف رہ جاتے ہیں۔ ہمارے فکر و عمل میں اعتدال پایا جاتا ہے نہ نظم و ضبط۔ہمیں ہر صورت زندگی میں ڈسپلن پیدا کرنا چاہیے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت خوش رہنا چاہیے یا خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خوشی خوشی جینے والے دوسروں کے لیے بھی خوشیوں کا سامان کرتے ہیں۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رہنے میں مدد دے؟
خوش رہنے کے لیے اللہ کی یاد ۔خدمت خلق ۔ ورزش ۔خوراک میں احتیاط اور توازن بہت ضروری ہے۔

%d bloggers like this: