نومبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زیادہ پیسے کمانے کا طریقہ: کامیاب صحافی کے قلم سے||مبشرعلی زیدی

چند ہفتے پہلے میں نے اردو بازار میں ناقابل فراموش کا ایک مختلف ایڈیشن دیکھا تو اس کے صفحات پلٹے۔ لاہور سے چھپی ہوئی کتاب، سال اشاعت 2013، کمپیوٹر کی کمپوزنگ اور مناسب پروف ریڈنگ۔ میں نے دونوں حصے خرید لیے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’دیوان سنگھ نے اپنی پہلوانی کے دم خم کئی اکھاڑوں میں دکھائے۔ بڑی بڑی ریاستوں سے پنجہ لڑایا۔ اکالیوں سے متصام ہوا۔ ماسٹر تارا سنگھ اور سردار کھڑک سنگھ سے تلوار بازی کی۔ مسلم لیگ سے چومکھی لڑا۔ پولیس کو تگنی کا ناچ نچایا۔ خواجہ گیسو دراز حضرت حسن نظامی سے چہلیں کیں۔ تیس سے کچھ اوپر مقدمے چلوائے اور ہر بار سرخ رو ہوا۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں کمائے اور اڑا ڈالے۔

وہ ایک عجائب گھر ہے جس میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں نادر دستاویزات مقفل پڑی ہیں۔ وہ ایک بینک ہے جس کے لیجروں میں کروڑوں کا حساب ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ ہے جس میں لاکھوں جرائم پیشہ انسانوں کے خفیہ حالات موجود ہیں۔ اگر وہ امریکا میں ہوتا تو وہ وہاں کا سب سے بڑا گینگسٹر ہوتا۔ کئی اخبار اس کے تابع ہوتے۔ بڑے بڑے یہودی سرمایہ دار اس کے اشارے پر ناچتے۔ وہ رابن ہڈ کا بھی باپ ہوتا۔‘

یہ الفاظ سعادت حسن منٹو کے ہیں۔

میں ابھی اسکول میں پڑھتا تھا اور اتنا کم عمر یا اتنا بھولا تھا کہ منٹو کے افسانے میرے سر پر سے گزر جاتے تھے۔ لیکن میں منٹو کو پڑھنا چاہتا تھا اس لیے افسانوں سے بددل ہوکر خاکوں کی کتابیں لے آیا۔ ’’لاؤڈ اسپیکر‘‘ کا پہلا خاکہ دیوان سنگھ مفتون کے بارے میں ہے، جس کی چند سطریں میں نے اوپر درج کیں۔

میں اس وقت بھی کہانیاں لکھتا تھا اور بچوں کے رسالوں میں چھپتی تھیں۔ لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ کچھ سال بعد دیوان سنگھ مفتون والا پیشہ اختیار کرلوں گا یعنی صحافی بن جاؤں گا۔ اس کے باوجود میں لاؤڈ اسپیکر کے تمام خاکے پڑھنے سے پہلے دیوان سنگھ مفتون کی کتاب ناقابل فراموش خریدنے کے لیے اردو بازار پہنچ گیا۔

یہ 1988 کی بات ہے یا شاید 1989 کی۔ مجھے ایک دکان پر کتاب مل گئی۔ اب یاد نہیں کہ پبلشر کون تھا لیکن میں نے وہ کتاب نہیں خریدی۔ اس کی کتابت اچھی نہیں ہوئی تھی اور وہ سلیقے سے نہیں چھاپی گئی تھی۔

منٹو یاد رہا لیکن میں دیوان سنگھ مفتون کو بھول گیا۔ کالج کے بعد پھر مطالعے کا دورہ پڑا اور میں ہر دوسرے دن کسی نئی کتابوں کی دکان یا پرانی کتابوں کے ٹھیلے پر کھڑا ہوتا۔ سردار جی نظر آتے تھے لیکن بقول منٹو، جیسے وہ خود بد خط تھے، ویسی ہی ان کی کتاب تھی۔ حالانکہ میرے پاس ایسی بیسیوں نہیں سیکڑوں کتابیں ہیں جنھیں میں نے سونگھ کر سنگھوا دیا ہے۔ لیکن پتا نہیں کیوں ناقابل فراموش خریدنے کو کبھی دل نہیں چاہا۔ کمپیوٹر آنے کے بعد پرانی کتابت والی بے شمار کتابیں نوری نستعلیق میں شائع ہوئیں لیکن ڈھائی عشروں میں ناقابل فراموش کا کوئی جدید ایڈیشن نظر نہیں آیا۔

چند ہفتے پہلے میں نے اردو بازار میں ناقابل فراموش کا ایک مختلف ایڈیشن دیکھا تو اس کے صفحات پلٹے۔ لاہور سے چھپی ہوئی کتاب، سال اشاعت 2013، کمپیوٹر کی کمپوزنگ اور مناسب پروف ریڈنگ۔ میں نے دونوں حصے خرید لیے۔

چونکہ میں جاہلی دور سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے قارئین مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں، اس لیے مجھے یقین ہے کہ بیشتر لوگوں نے دیوان سنگھ مفتون کو پڑھ رکھا ہوگا۔ میں اب پڑھ رہا ہوں تو ایسا لگ رہا ہے کہ صحافت کے منٹو کو پڑھ رہا ہوں۔

دیوان سنگھ مفتون کے اخبار کا نام ریاست تھا۔ ہندوستان کی تقسم سے پہلے بہت سی ریاستیں تھیں جن کا انتظام نواب یا مہاراجہ قسم کے آمروں کے ہاتھ میں تھا۔ بیشتر نواب عیاش بھی تھے اور ظالم بھی۔ ان ریاستوں میں عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ جاگیریں ہتھیالی جاتیں اور لوگوں کو بے عزت کیا جاتا۔ ریاست اخبار نے ان ریاستوں سے ٹکر لی اور ان کے اسکینڈل چھاپے۔ حکومت انگلشیہ کے اداروں اور وفاداروں کو بھی نہیں بخشا۔ ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں اخبار اور اس کے ایڈیٹر کے خلاف مقدمے قائم ہوئے۔ دیوان سنگھ مفتون کو عدالتوں کے بہت چکر لگانا پڑے۔ یہ کیسی حیران کن بات ہے کہ وہ بڑے بڑے نوابوں کے خلاف بھی کبھی کوئی مقدمہ نہیں ہارے۔

دیوان سنگھ مفتون کو مقدمے بازی کے دوران جیل کاٹنا پڑی۔ انھوں نے قید کے دوران یادداشتیں لکھنا شروع کیں اور کئی سال بعد فرصت ملی تو انھیں کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ انھوں نے اس کتاب کو اپنی آپ بیتی کے طور پر نہیں لکھا بلکہ مختلف واقعات لکھتے گئے۔ یہ تعداد میں اتنے زیادہ ہوگئے کہ سیکڑوں صفحات کی کتاب بن گئی۔

کتاب میں ایسے ایسے حیران کن واقعات ہیں کہ اگر منٹو، بابائے اردو مولوی عبدالحق، نیاز فتح پوری اور جوش جیسے لوگوں نے دیوان سنگھ مفتون کی سچائی کی قسم نہ کھائی ہوتی تو پڑھنے والے سب جھوٹ سمجھتے۔

جیل میں ایک بار سردار جی کی ملاقات ایک یورپین سے ہوئی جس نے بتایا کہ وہ بغداد میں کرنل لارنس کا ڈرائیور رہ چکا ہے۔ کون کرنل لارنس؟ وہی جسے پوری دنیا لارنس آف عریبا کے نام سے جانتی ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور انگریز ہندوستان میں بیٹھا تھا۔ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم لارنس آف عربیا 1962 میں بنائی گئی۔

کرنل لارنس کا ڈرائیور، جس کا نام ٹامس تھا، دراصل انگریز کا جاسوس تھا لیکن اسے دلی میں غلطی سے جرمنی کا جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا گیا اور اس نے کچھ عرصہ جیل میں گزارا۔ یہ غلطی اگر نہ ہوئی ہوتی تو دیوان سنگھ مفتون اس کی گرفتاری اور سی آئی ڈی کے محکمے کی نااہلی کا مزے دار واقعہ کیسے سناتے؟

کیا آپ نے زیڈ اے بخاری کی سرگزشت پڑھی ہے؟ اس میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ابتدائی دور کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ ایک واقعہ انھوں نے نہیں لکھا جو دیوان سنگھ مفتون نے تحریر کیا ہے۔ یہ ایک ہندو افسر کی کہانی ہے جسے بخاری صاحب نے مسلمان سمجھ کر ملازمت دی اور پھر کسی الزام میں نوکری سے نکلوا دیا۔ اس تحریر نے بخاری برادران کا قد کچھ کم کردیا۔

دیوان سنگھ مفتون نے تقسم کے موقع پر دلی میں ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھا۔ وہ کتنے بڑے آدمی تھے اور لوگ ان پر کتنا بھروسا کرتے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہمدرد والے حکیم عبدالحمید کو جب ہندو بلوائیوں سے خطرہ محسوس ہوا تو انھوں نے دیوان سنگھ مفتون کو بلایا۔ حکیم عبدالحمید کے چھوٹے بھائی یعنی ہمارے حکیم محمد سعید انھیں لینے اپنی موٹر میں پہنچے۔ سردار صاحب نے جو مشورہ دیا، حکیم صاحب نے اس پر عمل کیا۔ دیوان سنگھ مفتون نے فسادات کے زمانے کے آنکھوں دیکھے واقعات لکھے ہیں اور کیا ہندو، کیا مسلمان، کیا سکھ، سب کی پستی دکھائی ہے۔

دیوان سنگھ مفتون خود بھی پورے ہندوستان میں مشہور تھے اور بہت سے مشاہیر سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ انھوں نے ان ملاقاتوں کا احوال قلم بند کیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی، مولانا عبدالکلام آزاد، جوش، پطرس بخاری، مجاز، یہ تو چند لکھنے پڑھنے والے ہوئے، راجے مہاراجے الگ، سیاسی شخصیات الگ، سرکاری افسر الگ، رنگ رنگ کے فنکار الگ۔

دیوان سنگھ مفتون نے کون کون سے مہاراجہ کے ساتھ وقت گزارا اور پھر ان کے زوال کی کیا وجوہات دریافت کیں، انھیں کتے کیوں اور کس قدر عزیز تھے، انھیں طوائفوں سے کیوں عمر بھر نفرت رہی، انھیں سزائے موت پانے والے مجرموں سے ملنے اور ان کی پھانسی دیکھنے کے مواقع کیونکر ملے، وہ اور مہاتما گاندھی ایک دوسرے سے ملاقات کی خواہش کے باوجود کیوں نہ مل سکے، ایک جیل میں قید ہونے کے باوجود ان کا اور علامہ مشرقی کا سامنا کیوں نہیں ہوا، یہ سب جاننے کے خواہش مندوں کو کتاب پڑھنی ہی پڑے گی۔

کتاب کے آخر میں دیوان سنگھ مفتون نے ایک دل چسپ قصہ لکھا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ صفحہ میں نے اسی قصے کو سنانے کے لیے سیاہ کیا ہے۔ دلی کے ایک سکھ صحافی نے سردار صاحب سے پوچھا کہ آپ کی طرح جرنلزم میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے میں کیا کروں؟ انھوں نے کہا، پیسے کے مقابلے پر عوام کے مفاد کو مقدم رکھیں۔ صحافی نے کہا کہ نہیں، مجھے زیادہ پیسہ کمانے کا طریقہ بتائیں۔ دیوان سنگھ مفتون نے کہا، پیسے کمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نینی تال اور الموڑہ سے تین چار کم عمر اور خوب صورت لڑکیاں منگوائیں اور رنڈیوں کے دلال بن جائیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author