ایک دن میڈم پروین نے کہا، ”مبشر! جاکر ڈکشنری لے آؤ۔ ‘‘ میں نے پوچھا، ”کہاں سے ملے گی ڈشکنری؟ ‘‘ وہ ہنس پڑیں، ”ڈشکنری نہیں، ڈکشنری! میڈم الہیٰ بخش کے کمرے سے لے آؤ۔ ‘‘
میڈم الہیٰ بخش قائداعظم پبلک اسکول کی ہیڈمسٹریس تھیں۔ حسنین چیمبرز نام کی عمارت آج بھی خانیوال کے بلاک بارہ میں موجود ہے۔ قائداعظم پبلک اسکول اس کی پہلی منزل پر قائم تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس میں ایک طرف تین اندھیرے سے کمرے تھے۔ سامنے چقیں ڈال کر تین چار کلاسیں بنائی گئی تھیں۔ ایک کمرا بالکل آخر میں تھا جس کا دروازہ بند رہتا تھا۔ وہ میڈم الہیٰ بخش کی کلاس تھی۔
میڈم بوڑھی سی خاتون تھیں۔ لمبا قد لیکن انتہائی باریک آواز جو غصے میں لرزتی بھی تھی۔ وہ چوتھی یا پانچویں جماعت کو پڑھاتی تھیں۔ ان سے بچے ہی نہیں، استانیاں بھی ڈرتی تھیں کیونکہ وہ کسی کو بھی ڈانٹ دیتی تھیں۔
پہلی سے تیسری جماعت تک ہماری کلاس ٹیچر میڈم پروین تھیں۔ میڈم بھاری بھرکم لفظ ہے لیکن اس اسکول میں تمام استانیوں کو میڈم ہی کہا جاتا تھا۔ میڈم پروین کم عمر لڑکی تھیں اور ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ گالوں پر دانے نکلتے تھے۔ صورت سے بنجمن سسٹرز کی چوتھی بہن لگتی تھیں۔
میں کلاس میں فرسٹ آتا تھا اس لیے میڈم پروین نے مجھے مانیٹر بنادیا تھا۔ وہ اکثر مجھے اپنی ڈیسک کے پاس بلاکر پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی رہتی تھیں۔ ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارے ہاں آئیں اور اپنے گھر میں لگے پیڑ سے بہت سے لیموں توڑ کر لائیں۔ ان کی امی سے دوستی ہوگئی۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے اور کچھ عرصے بعد ان کا کراچی تبادلہ ہوگیا۔ میڈم نے استعفا دے دیا۔ و ہم سے الوداعی ملاقات کرنے گھر آئیں تو ان کے والد بھی ساتھ آئے۔
میرے پاس آج بھی میڈم پروین کے ہاتھ کے لکھے ہوئے رزلٹ کارڈ موجود ہیں۔
انھیں دنوں کا ذکر ہے کہ میڈم پروین نے کہا، ”مبشر! جاکر ڈکشنری لے آؤ۔ ‘‘ میں نے میڈم الہیٰ بخش کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اجازت ملی تو اندر جاکر پوچھا، ”میڈم! مے آئی کم اِن۔ ‘‘ سب بچے ہنس پڑے کیونکہ میں اندر تو پہنچ چکا تھا۔ میڈم نے پوچھا، ”کیا کام ہے؟ ‘‘ میں نے بتایا، ”ڈشکنری چاہیے۔ ‘‘ ایک بار پھر سب بچے ہنس پڑے۔
وہ ایک چھوٹی سی انگریزی ٹو اردو ڈکشنری تھی۔ آج کل ہر پرائمری کلاس کے بچے کے بیگ میں ہوتی ہے۔ میڈم پروین نے کوئی لفظ دیکھا اور کہا کہ واپس کر آؤ، ڈشکنری۔
بابا مجھے ہر مہینے ایک رسالہ خریدنے کے پیسے دیتے تھے۔ اس ماہ میں نے تعلیم و تربیت یا نونہال کے بجائے ڈکشنری خریدی۔ انگریزی تو خاک نہ آئی لیکن ڈکشنری کہنا سیکھ گیا اور دیکھنے کا طریقہ بھی آگیا۔
لڑکپن میں ایک بار پھر لغت دیکھنے کا شوق ہوا اور میں نے اردو اور انگریزی کی آٹھ دس لغات خرید ڈالیں۔ بعد میں ہندی، عربی، فارسی کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہرین کی ڈکشنریاں بھی لاکر الماری میں ڈال لیں جو کبھی کام نہ آئیں۔
شیعہ گھرانے اور امروہے سے تعلق ہونے کی وجہ سے میری زبان ہمیشہ سے صاف تھی۔ اس میں ظاہر ہے کہ میرا کوئی کمال نہیں۔ شاعری سے آشنا ہونے والوں کی زبان اور تلفظ دوسروں سے بہتر ہوجاتا ہے۔ شیعہ بچوں کے کان میں نوحے، سلام، مرثیے پڑتے رہتے ہیں اس لیے ان کی زبان نکھرتی رہتی ہے۔ ہمارے بچپن تک ذاکروں اور علما بھی زبان داں ہوتے تھے۔ اب وہ بھی پیشہ ور فن کار ہوتے ہیں۔
کم از کم 80ء کے عشرے تک اخبار، ریڈیو اور ٹی وی سے بھی زبان سیکھی جاسکتی تھی۔ ریڈیو پر ادیب شاعر حضرات کو تلفظ درست کرنے کے لیے ملازم رکھا جاتا تھا۔ مجھے پانچویں جماعت کا اسکالرشپ کا امتحان یاد ہے جس کی تیاری اخبارات پڑھواکر کروائی گئی تھی۔ مجھے دو جملے یاد ہیں۔
”بعض‘‘ لوگ ”باز‘‘ پالتے ہیں۔
”بائیس‘‘ گاڑیاں کھڑی ہونے کے ”باعث‘‘ سڑک بند ہوگئی۔
ایسی مشق سے املا اور تلفظ ٹھیک ہوجاتا تھا۔
نیوز ریڈ کا تلفظ درست کروانا نیوز پروڈیوسر کا کام ہے۔ لیکن اب نیوز ریڈر یا اینکر نہیں، مشاہیر ہوتے ہیں یعنی سیلی بریٹیز۔ ان کی غلطی کو غلطی کہنا مہنگا پڑسکتا ہے۔ ایک بار میں نے ایک لونڈے کو بتایا کہ سرد مُہری نہیں، سرد مَہری ہوتا ہے۔
کوئی مَہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا!
لونڈے نے کہا، ”اچھا یہ بتاؤ قَطر ہوتا ہے یا قُطر ہوتا ہے؟ خِلقت ہوتا ہے یا خَلقت ہوتا ہے؟ زُبان ہوتا ہے یا زَبان ہوتا ہے؟ ‘‘ میں نے کہا، ”بابا معاف کرو۔ سرد مُہری ہی پڑھو۔ ‘‘
ہاں ایک بار عائشہ بخش نے میری تصحیح کی تھی۔ انھوں نے کسی خبر میں پڑھا، شِمالی وزیرستان۔ میں نے کہا کہ شاید شُمالی ہوتا ہے۔ ہمیشہ شُمالی ہی سنا ہے۔ عائشہ ضدی نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا، لغت دیکھتے ہیں۔ لغت میں شِمالی تھا۔ میں نے اس کے بعد کبھی عائشہ کو نہیں ٹوکا۔
اردو کے بہت سے الفاظ مرتے جارہے ہیں۔ میں نے کئی الفاظ زندگی میں ایک آدھ بار ہی سنے ہیں۔ جنگ کے ایک ساتھی ڈاکٹر قمر عباس نے ایک بار کہا، ”فلاں صاحب کسی بات پر کبیدہ خاطر ہوگئے۔ ‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا، ”واہ واہ مکرر!‘‘ وائس آف امریکا کی ساتھی بہجت گیلانی نے ایک دن کہا، ”فلاں شخص کسی بات پر جِز بِز ہوئے۔ ‘‘ میں نے تعریف کی لیکن یہ بھی کہا کہ چونکہ آپ کئی عشروں سے پاکستان سے باہر ہیں اس لیے یہ لفظ استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان میں اب کون جِزبِز بولتا ہے؟
بیس سال پہلے ایکسپریس میں ایک سینئر کولیگ نے خبر میں لفظ لکھا، خاک ستر۔ میں نے کہا کہ اسے ملاکر لکھیں کیونکہ اس کا تلفظ خاکس تر ہے۔ سینئر صاحب نہ مانے تو میں نے مصرعہ پڑھا،
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔
نیوز اینکرز سے گزارش ہے کہ جس قدر ممکن ہو، شاعری پڑھیں اور یوٹیوب پر ضیا محی الدین کو سنیں۔ غلطیاں سب کرتے ہیں لیکن صحافی کی خبر میں حقائق کی غلطی اور نیوزریڈر کی خبر میں تلفظ کی غلطی ناقابل معافی ہوتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ