مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یکساں نصاب کیلئے تجاویز!||ظہور دھریجہ

ہم لکھ لکھ کر تھک گئے مگر پاکستانی بچوں کو ان کی ماں بولیوں میں تعلیم کا حق نہیں مل سکا ۔ اگر ایک قوم اورایک نصاب کی بات ہے تو اس بارے میں وضاحت ہونی چاہیئے ۔ یکساں نصاب میں پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ثقافتوں کے تحفظ کی نہ صرف ضمانت حاصل ہونی چاہیئے بلکہ فروغ کا حق بھی ملنا چاہیئے ۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزارتِ وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت حکومت پاکستان کی طرف سے یکساں قومی نصاب کے بارے میں اشتہار شائع ہوا ہے جس میں 20 دسمبر 2021ء تک تجاویز طلب کی گئی ہیں ۔اشتہار میں ایک قوم ایک نصاب کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یکساں قومی نصاب کی بہتری کیلئے والدین ، اساتذہ ، عوام ، طالب علم ، قومی و صوبائی ماہرین تعلیم قلم اُٹھائیں ۔

پاکستان کا مستقبل روشن بنائیں ۔اچھی بات ہے کہ تجاویز طلب کی گئی ہیں مگر اصل مسئلہ عمل درآمد کا ہے ۔مختلف مواقعے پر تجاویز طلب کی جاتی ہیں ۔

ہم لکھ لکھ کر تھک گئے مگر پاکستانی بچوں کو ان کی ماں بولیوں میں تعلیم کا حق نہیں مل سکا ۔ اگر ایک قوم اورایک نصاب کی بات ہے تو اس بارے میں وضاحت ہونی چاہیئے ۔ یکساں نصاب میں پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ثقافتوں کے تحفظ کی نہ صرف ضمانت حاصل ہونی چاہیئے بلکہ فروغ کا حق بھی ملنا چاہیئے ۔

یکساں نصاب ایسیا ہو جس میں پاکستان کے تمام خطوں کے مشاہیر کا تعارف شامل ہو ۔ میں اپنے وسیب کی بات کروں گا کہ نصاب کی کسی کتاب میں وسیب کے مشاہیر خواجہ فرید ، مولانا عبیداللہ سندھی ، نواب صادق خان عباسی ، نواب مظفر خان شہید ، احمد خان کھرل ، مولوی لطف علی اور بہت سے دیگر کا کہیں ذکر شامل نہیں ۔ سرائیکی وسیب کے پتن منارا ، رحمن ڈھیری ، کافر کوٹ ، پرہلاد مندرملتان ، قلعہ ہڑند ، جلیل پور اورآثار قلعہ ڈیراور چولستان کے دیگر قلعہ جات کا نصاب کی کتاب میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ۔

سرائیکی وسیب میں عظیم ترین لائبریریاں جن میں جھنڈیر لائبریری میلسی ، سنٹرل لائبریری ملتان ، مبارک لائبریری صادق آباد ، لانگے خان لائبریری و دیگر موجود ہیں ان کا بھی کسی جگہ ذکر نہیں ۔ وسیب کی تہذیب ثقافت ، لوک گیت اور سرائیکی زبان و ادب کا کسی جگہ کوئی ذکر نہیں ہے ۔ یکساں نصاب تعلیم کیلئے پیشرفت کی جا رہی ہے تو سرائیکی وسیب کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔

یکساں نصاب کے بارے میں انگریزی کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے مگر جب تک انگریزی کا متبادل نہیں آتا اُس وقت تک اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھنا ہو گا کہ اردو میڈیم کی وجہ سے غریبوں کے بچے رہ گئے اور انگلش میڈیم کے باعث امراء کی اولادیں حکمرانی کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے کھل کر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی ہے حالانکہ وہ خود انگلش میڈیم میں پڑھے۔ ذہنی غلامی یا ذہنی پسماندگی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی اصل کو چھوڑتا ہے۔ وزیر اعظم نے کھل کر بات کی ہے تو حقیقی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اصل زبانیں وہ ہیں جو یہاں پیدا ہوئیں جن کا اپنا خطہ و سر زمین ہے۔ انگریزی کی طرح ہندی کا بھی موجودہ پاکستان سے تعلق نہیں ہے۔ پاکستانی ثقافت کے فروغ کیلئے پاکستانی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا ہو گا۔ یکساں نصاب سے زیادہ ضرورت طبقاتی تعلیم کے خاتمے اور ماں بولی میں تعلیم کا اجراء ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیقات میں سے زبان کو بہترین تخلیق کا درجہ حاصل ہے ، انسان کو جس بناء پر اشرف المخلوق کہا گیا اس میں ایک زبان بھی ہے۔

سائنس کی دنیا میں زبان کا نام انسان اور انسان کا نام زبان ہے ۔ زبان ایک طرز حیات ، ایک اسلوب زیست اور ایک ایسا لافانی نظریہ ہے جو انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔ زبان تعصب نہیں محبت کا نام ہے ، لیکن اس فلسفے کو نہیں سمجھا گیا ۔ ہندوستان اور پاکستان میں ایک ہی وقت میں آزادی حاصل کی ، ہندوستان میں اس مسئلے کا حل فطری اصولوں کے مطابق یہ نکالا کہ صرف ہندی کی بجائے ہندوستان مین بولی جانیوالی بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا اور بچوں کو ان کی ماں بولی میں تعلیم کا حق بھی دے دیا ۔

البتہ اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی کو برقرار رکھا گیا ۔ پاکستان میں اسی طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پوری دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صرف ماں بولی میں تعلیم کے ذریعے ہی بچے کی ذہنی نشو نما کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے کہ بچے کی ذہنی و جسمانی ساخت پر اس کی ماں بولی کے اثرت ماں کے پیٹ میں ہی مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتیں ماں بولی سے ہی پیدا ہوتی ہیں ، دوسری کسی بھی زبان میں آپ اسے پڑھائیں گے وہ محض رٹا ہوگا۔ کسی بھی ماں بولی کو آئوٹ کرنے کا مقصد بچے کی تہذیب و ثقافت کو قتل کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے کہ زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت اس میں بند ہوتی ہے اور زبان ہی پورے تمدن کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ اگر آپ اپنے ادب، اپنے فوک، اپنی موسیقی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،تو لوک دانش کا اثاثہ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لوگ تہذیب ، تمدن اور زبان ثقافت سے محروم ہوتے ہیں تو پھر ان میں حیوانیت آ جاتی ہے اور پھر حیوانیت کے روپ چیر پھاڑ والے ہوتے ہیں ، پھر انسانی معاشرے میں جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے ، آج کا بحران تہذیبی بحران ہے، ثقافتی بحران ہے اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت اس کے مظاہر ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہیلیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں اس کے باوجود پاکستان کے حکمران ان زبانوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں، حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح لکھا ہے کہ ماں بولیوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: