اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

طلباء یونین کی بحالی|| مہرین فاطمہ

خود غرضی ، انا پرستی اور ذاتی مفاد کو سائڈ پر رکھ کر اجتماعی مفادات کا خیال کریں اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ بدلیں۔ اب تک ہماری پالیسی نفرت اور عناد پرمبنی رہی ہے اور ان ہی بنیادوں پر ہماری قومی زندگی چل رہی ہے۔جو ایک باشعور قوم کی شایان شان نہیں ہے۔

مہرین فاطمہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستان میں پہلی بار1962 ء میں صدر ایّوب خان کے دورِ حکومت میں طلبہ کو تعلیمی اداروں میں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا ۔ اس سرگرمی نے طلبہ کے سیاسی شعور میں اضافہ کیا اور بعدازاں، اُنھوں نے ایّوب خان کے خلاف جاری مہم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ طلبہ تحریک کا ایک روشن باب تھا، مگر اس کردار نے حکومتی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی بجادی۔ ضیاء الحق اقتدار میں آئے، تو تحریک کے خوف سے طلبہ کو بے زبان کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ پاکستان بھرکے تعلیمی اداروں میں طلباء یونین اور طلبہ تنظیموں پر پابندی کو 37 سال گزر چکے ہیں ۔ طلباء یونین پر پابندی سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دورمیں 9 فروری 1984ء میں لگائی گئی تھی۔

1998ء میں میاں محمد نواز شریف نے بھی بحثییت وزیر اعظم تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں اور یونینز پر پابندی لگانے کا اعادہ کیا۔
1992ء میں تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم سے زیادہ سیاست نے جگہ بنا لی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس وقت کی حکومت سے تعلیمی اداروں میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
آج بھی طلباء کا موقف ہے کہ ان کی تنظیموں پر پابندی عائد کرنا ان کی حق تلفی ہے۔ طلباء تنظیمیں طلباء کو شعور وآگہی فراہم کرتی ہیں جب کہ پابندی ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ تحریک پاکستان میں طلباء نے بہت کام کیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ طلباء کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخالفین نے ہمیشہ طلباء کو آپس میں لڑوا کر کمزور سے کمزور ترین کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی ، اگر قائد اعظم چاہتے تو طلباء کو بڑی آسانی سے مسلم لیگ کی مفادات کے لیے استعمال کرسکتے تھے جس طرح دیگر ملکی سیاسی پارٹیاں طلباء کو اپنی پارٹی مفادات کے لیے استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ لیکن قائد اعظم نے 10نومبر 1942ء کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چھٹے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں جب آپ سے کہتا ہوں کہ آپ سیاست میں کوئی عملی حصہ نہ لیں تو آپ میرا مطلب سمجھنے میں غلطی نہ کریں ، میرا مطلب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ خود کو تیار کریں ،آپ کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ہے تعلیم ، تعلیم، تعلیم ".
نوجوان نسل چونکہ ملک وقوم کے معمار ہوتے ہیں اور مستقبل میں یہی نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنھبالیں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں نوجوانوں کو ملکی وقومی مفادات کی بجائے ہمیشہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس وجہ سے آج ہمارا شمار ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔ سیاسی مفاد پرست لوگ ایک طرف اخبارات میں بیانات شائع کراتے رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے اور کلاشنکوف کلچر سے پاک کیا جائے لیکن جب عدلیہ اور حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہوجاتی تھی تو پھر یہی لوگ قومی مفادات کے فیصلے کی راہ میں آ جاتے ہیں جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طلباء تنظیموں کے نام پر غیر طالب علم عناصر گھس آتے تھے اور پھر ان تاریک راہوں میں نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ منو مٹی تلے سو گئے ۔
جب تک طلباء خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔ تعلیمی اداروں کا ماحول طلباء کے تعاون ہی سے خوشگوار بن سکتا ہے۔ طلباء کو غیر جانبدارہو کر سوچنا چاہیے کہ وہ جن سیاسی لوگوں کے آلہ کار بنتے رہے ہیں وہ ان کے مستقبل کے ضامن کیسے ہوسکتے ہیں؟ کتنے گھروں کے چراغ منو مٹی تلے سو گئے ہیں۔
کیا ملا تھا ان کو اس راستے پر چلتے ہوئے؟ کاش ! ہمارے طلباء جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے اپنا بھلا برا خود سوچیں۔ ہم 21 ویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ایک جدیدٹیکنالوجی دنیا ہمارے سامنے ہے جہاں ہمیں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر پاکستانی اپنی اپنی جگہ اپنا فرض ادا کرے۔

خود غرضی ، انا پرستی اور ذاتی مفاد کو سائڈ پر رکھ کر اجتماعی مفادات کا خیال کریں اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی سوچ بدلیں۔ اب تک ہماری پالیسی نفرت اور عناد پرمبنی رہی ہے اور ان ہی بنیادوں پر ہماری قومی زندگی چل رہی ہے۔جو ایک باشعور قوم کی شایان شان نہیں ہے۔

ہمیں وہی قومی پالیسی اپنانی چاہیے جو ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں ہو اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل بنیاد پر قائم طلباء یونینزکی پابندی سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگتا رہا ہے اور وہ راہ فرار اختیارکرتے ہوئے گمنام منزل کے راہی بنتے رہے ہیں۔
لہٰذا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طلباء یونینز کی بحالی اور تعلیمی اداروں میں قائم ہونے والی کمیٹیوں میں طلبا کو بھی نمائندگیاں دی جائیں تاکہ مسائل کو درست طریقے سے حل کیا جائے۔ طلباء یونین پر عائد پابندی ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ جب یونین کو بحال کیا جائے گا اور تعلیمی اداروں میں جمہوریت کا نفاذ ہو گا تو بہت سے مسائل ختم ہو جائیں گے

%d bloggers like this: