مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب: بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹر ||حیدر جاوید سید

2013ء کے انتخابات کے روز رات ساڑھے نو یا دس بجے مسلم لیگ کے ماڈل ٹائون میں قائم انتخابی دفتر میں بالکونی میں کھڑے ہوکر میاں نوازشریف نے خطاب کیااور کہا

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ اور لکھنا چاہتا تھا لیکن یہ ہمارے حافظ صفوان (یک از عاشقِ صادق سول سپرمیسی و جاتی امرا شریف) چین نہیں لینے دیتے۔ گزشتہ روز ا نہوں نے ارشاد فرمایا
’’مسلم لیگ اور محترمہ فاطمہ جناح کا ووٹ بینک توڑ کر پیپلزپارٹی بنوائی گئی اور پھر ووٹ بینک اسے دلایا گیا‘‘۔
تاریخی طور پر یہ بات غلط ہے اور مجھے بھی معلوم ہے کہ حافظ جی نے ’’چسکا‘‘ لیا ہے لیکن تاریخ ایسے ہی بنتی ہے۔ دستیاب مسلم تاریخ ہو، ہندی مسلم یا پھر پاکستانی تاریخ، ایسے ہی مغالطوں سے بھری پڑی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی بنائی۔ اس وقت مسلم لیگ کا اور محترمہ فاطمہ جناح کا ووٹ بینک تھا کیا؟ پہلے تو یہ جان لیجئے کہ جناح صاحب کی ہمشیرہ ایوب خان کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی صدارتی امیدوار تھیں کونسل یا قیوم مسلم لیگ کی نہیں بلکہ محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی طور پر کبھی سرگرم عمل ہی نہیں رہیں ،
متحدہ حزب اختلاف کا خیال تھا کہ قائداعظم محمدعلی جناح کی ہمشیرہ میدان میں اتریں گی تو بابائے قوم سے محبت کا ووٹ انہیں ملے گا سیاسی طور پر یہ سوچ درست تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ صدارتی انتخابات کا الیکٹوریل کالج بی ڈی ممبران (بلدیاتی ارکان) پر مشتمل تھا۔
ون مین ون ووٹ پر انتخابات 1970ء میں ہوئے اس کے لئے ملک کے فوجی سربراہ کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے اپنے لیگل فریم ورک آرڈر میں ترمیمی قانون شامل کیا تھا۔
یوں ایوب کے صدارتی انتخابات اور 1970ء کے عام انتخابات دونوں کے الیکٹوریل کالج الگ الگ تھے۔
1970ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں دوسری جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ کے تین گروپ موجود تھے۔ کونسل مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ اور قیوم مسلم لیگ۔ تیینوں کے امیدواروں نے اس وقت کے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے الیکشن لڑا اور ووٹ لئے۔
بھٹو کی پیپلزپارٹی اپنا ووٹ بینک لے کر میدان میں اتری مسلم لیگ کے تینوں گروپس اور دیگر جماعتوں سے بہت کم لوگ پیپلزپارٹی کا حصہ بنے اس نئی سیاسی جماعت کے ووٹروں کی اکثریت درمیانے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھتی تھی۔
ترقی پسندوں کی بڑی تعداد بھٹو صاحب سے متاثر ہوئی اس کے ووٹ بینک کا ایک حصہ ضرور پیپلزپارٹی کو ملا۔
دائیں بازو کے قدامت پرست (مذہبی جماعتوں والے) بھٹو اور اس کی پارٹی کے مخالف تھے۔ 27 علماء نے پیپلزپارٹی کے خلاف فتویٰ دیا کہ اسے ووٹ دینا غیرشرعی ہے۔
جذباتی مستیڑ مولوی تو کہا کرتے تھے ’’پیپل پارٹی کو ووٹ دینے سے نکاح ٹوٹ جائیں گے‘‘۔
مطلب یہ کہ بھٹو کی پیپلزپارٹی فاطمہ جناح یا مسلم لیگ کا ووٹ توڑنے کے لئے نہیں بنائی گئی تھی۔
اب ذرا پیچھے چلئے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی تلاش و دریافت نہیں تھے البتہ دونوں (بھٹو اور ایوب) سکندر مرزا کی کابینہ کا حصہ تھے۔
مارشل لاء 1958ء میں لگا بھٹو بعد میں ایوب کی کابینہ میں شامل ہوئے۔
اب آیئے ان دنوں پنجاب میں ہونے والے اس پروپیگنڈے کی طرف کہ پپلزپارٹی کو فوج دوبارہ پنجاب میں لارہی ہے۔
غور کیجئے کہ 2008ء سے2013ء کے درمیان جرنیل شاہی کس کے ساتھ کھڑی تھی۔
انجمن سیاپا فروشان ٹی وی چینلز کس کے ساتھ تھے؟
ساعت بھر کے لئے رکئے۔
ہم 1988ء میں چلتے ہیں۔ 1986ء میں محترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی کو خیرباد کہہ کر وطن واپس آئیں۔ انہیں ایک سلامی نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے انکلز کی پارٹی بنواکر دی گئی۔ دوسری سلامی اسلامی جمہوری اتحاد بنواکر۔
مرحوم جنرل حمید گل نے مرتے دم تک اقرار کیا کہ آئی جے آئی، فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ٹیسٹ ٹیوب بے بی تھا۔ جرنیل خوفزدہ تھے بینظیر بھٹو سے وہ یہ سمجھتے کہ اگر اقتدار پیپلزپارٹی کو ملا تو بھٹو کی پھانسی اور جمہوریت پسند کارکنوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام لیا جائے گا۔
اس خوف کے علاج کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا۔ بھٹو مخالف ووٹ اکٹھے کئے گئے۔ بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹر کھل کر سامنے آگئے۔
1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوریت اتحاد کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے وسیع دولت فراہم کی۔ کس کس کو کتنے پیسے ملے سارا حساب سپریم کورٹ میں ایئرمارشل اصغر خان مرحوم کی دائر درخواست میں موجود ہے۔
جن لوگوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے پیسے لئے ان میں سے صرف محترمہ سیدہ عابدہ حسین نے اقرار کیا کہ انہوں نے ’’مالی مدد لی تھی‘‘۔
1988ء اور 1990ء کے دونوں انتخابات بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹر کی فضا میں ہوئے۔ آئی جے آئی کے بکھرنے کے ساتھ غیرجماعتی اسمبلی کی کوکھ سے جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ بھی بکھر گئی۔اول اول جونیجو اور فدا محمد خان گروپ تھے۔
فدا محمد خان گروپ ہی آگے چل کر مسلم لیگ (ن) بنا۔
جونیجو گروپ حامد ناصر چٹھہ چلاتے رہے یہ گروپ پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار بھی ہوا یہ 1993ء سے 1997ء کے درمیانی برسوں کی بات ہے۔
1993ء ، 1997ء کے دونوں انتخابات مسلم لیگ (ن) نے بھٹو مخالف دائیں بازو کے ووٹروں کے بل بوتے پر لڑے اب اس میں انجمن محبان جنرل ضیاء الحق کا حصہ بھی شامل تھا۔
2002ء کے انتخابات جنرل پرویز مشرف نے کروائے ان انتخابات سے قبل وہ تین کام کرچکے تھے، اولاً سپریم کورٹ سے آئین میں ترمیم کا حق لے لیا تھا (یہ حق ظفر علی شاہ کیس میں دیا گیا)ثانیاً ایک ریفرنڈم کے ذریعے وہ 5سال کے لئے صدر بن بیٹھے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان سمیت بہت سارے محبوب و عظیم رہنما اس ریفرنڈم کے پرجوش حامی تھے۔ ثالثاً پرویز مشرف نے مسلم لیگ ہم خیال گروپ کو (یہ گروپ مسلم لیگ ن کے اندر اکتوبر 1999ء سے قبل قائم ہوچکا تھا میاں محمد اظہر اس گروپ کے سربراہ تھے۔
سید فخرامام، بی بی عابدہ حسین اور دوسرے بہت سارے لوگ اس گروپ کا حصہ تھے) پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کا نام دلوایا چودھری شجاعت حسین اس کے صدر بنے۔
اس جماعت میں مسلم لیگ (ن) کے لوگ جمع کئے گئے۔ فاروق لغاری مرحوم کی ملت پارٹی بھی ضم کی گئی۔ دوسرے چھوٹے چھوٹے گروپ بھی مسلم لیگ ق کا حصہ بنے۔ الیکشن کےبعد پیپلزپارٹی سے ایک
” پی” کے اضافے کے ساتھ پیپلزپارٹی پیٹریاٹ بنوائی گئی۔ رائو سکندر اقبال۔ مخدوم سید فیصل صالح حیات اور ڈاکٹر شیر افگن اس نئی جماعت کے قائدین تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں ق لیگ کے سابق ارکان کی بڑی تعداد (ن) لیگ میں چلی گئی۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ (ن) لیگ اس وقت اے پی ڈی ایم نامی سیاسی اتحاد کا حصہ تھی روایتی طور پر یہ اتحاد بھٹو مخالفین پر مشتمل تھا۔
اے پی ڈی ایم نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کو انتخابی عمل میں شرکت کے لئے آمادہ کیا اور انہیں بائیکاٹ کے نقصانات سے آگاہ کیا۔
میاں صاحب نے مشورہ مانا انتخابی عمل میں شریک ہوئے لیکن اے ڈی پی ایم نے بائیکاٹ کیا۔ 2008ء سے 2013ء کے درمیان کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے مسلم لیگ (ن) مکمل طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی رہی۔
میمو گیٹ میں میاں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچے۔ یوسف رضا گیلانی کو چودھری کورٹ نے نااہل قرار دیا تو میاں صاحب کہتے تھے
"یہ انسانوں کا ملک ہے سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا ہے بس گھر جائو اور ابھی جائو”۔
2013ء کے انتخابات کے روز رات ساڑھے نو یا دس بجے مسلم لیگ کے ماڈل ٹائون میں قائم انتخابی دفتر میں بالکونی میں کھڑے ہوکر میاں نوازشریف نے خطاب کیااور کہا
’’دو تہائی اکثریت ملنی چاہیے تاکہ اطمینان سے حکومت ہو اور خدمت‘‘
اس سے قبل 2011ء میں مالکان کی اشرافیہ کے نمائندے جنرل شجاع پاشا تحریک انصاف کے تن مردہ میں ’’جان پھونک‘‘ چکے تھے۔
منصوبہ عمران کو لانے کا ہی تھا لیکن کرن تھاپر کو دیئے گئے ان کے انٹرویو نے ’’ہمدردوں‘‘ کو فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا اور مسلم لیگ (ن) کو اقتدار مل گیا۔
پیپلزپارٹی کا مال غنیمت تحریک انصاف کے حصے میں آیا ۔
آخری بات یہ ہے کہ کبھی پنجاب کا غالب ووٹ پیپلزپارٹی کا تھا۔ اینٹی بھٹو فیکٹر سے شروع ہوا کام پاشا گیری پر تمام ہوا۔ مستقبل میں وسطی پنجاب میں کیا ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب سازشی تھیوریوں کی بجائے ماضی کی تاریخ اور زمینی حقائق میں تلاش کیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: