اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماضی کے جھروکے ۔۔۔۔||گلزار احمد

اس کتاب کو پڑھ لینے سے بہاروں کی تلاش کا جو جزبہ سرد پڑ گیا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو گیا ھے ۔ وہ بہاریں جو قوموں کو نشان منزل کی تلاش میں مدد دیتی ہیں۔ وہ بہاریں جن سے انسانوں کے دل و دماغ پر خوشبووں کی حکمرانی ہوتی ھے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی کے جھروکے ۔۔۔
شیر دریا ۔
انیس سو نوے کی دھائی میں ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے دریاۓ سندھ۔۔ جس کا نام انہوں نے شیر دریا رکھا۔۔ سے متعلق ایک کتاب لکھی۔رضا علی عابدی اس کتاب کو لکھتے وقت دو دفعہ لندن سے ڈیرہ آۓ ۔ایک اس وقت جب کتاب کا مواد جمع کر رھے تھے اور ممتاز شھریوں کے انٹرویو ریکارڈ کئے اور دوسری بار جب کتاب چھپ گئی اس کی تقریب رونمائی وینسم کالج کے ہال میں منعقد ہوئی۔ کتاب کی رونمائی میں مجھے پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا کہا۔ آپ اس وقت کی دریا سندھ کی کہانی میری زبانی سنیے۔
رضاعلی عابدی کی کتاب شیر دریا سندھ کے کنارے آباد لوگوں کی کہانی ھے ۔جس میں ان لوگوں کی سماجی۔ثقافتی۔ادبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا گیا ھے۔دریاۓ سندھ ھزاروں سال سے رواں دواں ھے اور اس کے کنارے تہزیبیں اجڑتی اور بستی رہتی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریاۓ سندھ ایسے نظر آتا ھے جیسے دھرتی سانس لے رہی ھو اور اگر یہ رک جاۓ تو دھرتی کے دل کی دھڑکن رک جاۓ ۔ ہم لوگ اس دریا سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور اس دریا کا پانی ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ھے لیکن یہ بات ہمیں معلوم نہیں تھی کہ یہ اپنے دامن میں ھزاروں داستانیں سمیٹے یہاں سے گزرتا ھے اور داستانیں سنانے کا شوق بھی رکھتا ھے۔ اس دریا کی زبانی بچپن میں ہماری دادیاں ایک فقرہ سناتی رہی ہیں جب ہم دریا پر نہانے جاتے تو وہ ہمیں بتاتی کہ دریا کہتا ھے میرے ہاتھ پاوں نہیں ہیں اس لئے اپنا خود خیال رکھو۔پتہ نہیں دریا کا یہ نعرہ مستانہ ہماری دادیوں نے کہاں سے سنا تھا ؟ مگر معلوم ھوتا ھے وہ ہمیں تیرتے ہوۓ احتیاط کا سبق سکھاتی تھیں تاکہ ہم گہرے پانی میں نہ اتریں۔ اور بات بھی سچ ھے کہ درجنوں افراد اس دریا میں تیرنے کے شوق میں ڈوب چکے ہیں ۔اب شیر دریا کتاب پڑھی تو پتہ چلا سچ مچ دریا کو زبان مل گئی ھے ۔ پھر بات یہاں ختم نہیں ھوتی بلکہ دریا اپنے دامن میں پلنے والوں کی تہزیب وثقافت ۔ماضی و حال اور مستقبل اس طرح بیان کرتا چلا جاتا ھے جیسے ایک نجومی قسمت کا حال بتا رہا ھو۔ لداخ سے لے کر ٹھٹھہ کے علاقے تک مصنف جہاں بھی گیا لوگوں نے اس کی خوب خاطر مدارت اور مہمان نوازی کی۔ ہر جگہ تعلیم کی کمی اور مواصلات کی سھولتوں کے فقدان کا گلہ۔۔ زبان وادب و ثقافت کے ہر جگہ مختلف رنگ جو قوس قزح کی طرح جڑے ہوۓ ہیں اور ان رنگوں میں محبت اور شھد کا مٹھاس ملا ھوا ھے۔ اس کتاب کے 341 صفحات پڑھ ڈالیۓ آپ کو ہر سطر میں ایک جذبہ ملے گا اور وہ ھے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ ۔اس کے ساتھ ساتھ آپکو ہر صفحے میں امن و محبت اور اتحاد و یگانگت کا پیغام ملے گا۔ شیر دریا سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ھے کہ ہمارا ملک غریب سھی لیکن ہمارا اپنا کوئی ذھنی و ثقافتی افق ھے اور پاکستانی قوم میں ترقی کے لئے ایک ذھنی انقلاب پیدا ھو چکا ھے۔ دریا سندھ سے متعلق بی بی سی لندن سے ساٹھ پروگرام پیش کئے گئے یہ ممکن تھا کہ جن لوگوں نے یہ پروگرام بڑے شوق سے سنےکچھ عرصے بعد یہ سب کچھ انکی یاد کے خزانوں میں گم ھو جاتا اور دوسرے لوگ فائدہ نہ اٹھا سکتے لیکن شیر دریا کو کتابی شکل میں محفوظ کر دینے سے اب یہ ممکن ھو گیا ھے کہ اس آواز کی گونج صدیوں تک سنائی دیتی رھے گی۔سلطنتوں کے تخت الٹ جاتے ہیں قومیں فنا ھو جاتی ہیں تہزیبیں مٹ جاتی ہیں لیکن ادیبوں کے کارنامے صدیوں زندہ رھتے ہیں اور پرانی تہزیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔عابدی صاحب نے دریاۓ سندھ کی لہروں سے جو پیغامت وصول کئے وہ بڑے دلچسپ ہیں۔ شیر دریا برف پوش پہاڑوں سے چاند کی لکیر کی طرح نکلا اور جمنے سے محفوظ رہا۔ تپتے ہوۓ صحراوں سے گزرا لیکن ان کی حدت کو اپنے اندر نہیں سمویا۔شیر دریا موسم بہار کی خوشبووں کو سمیٹتا۔۔خنک ہواوں کے مزے لوٹتا عزم کی رم جھم پھوار میں آگے بڑھتا چلا جاتا ھے اور اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوۓ اپنی منزل پا لیتا ھے۔آج ہم صرف دو موسموں کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں یا جھلس جاتے ہیں یا منجمد ہو جاتے ہیں یا تپتے رہتے ہیں یا تھر تھر کانپتے ہیں۔یہ دریا ہم سے سوال کرتا ھے کہ جو شگوفے پھوٹے تھے وہ ثمر بار درخت کیوں نہ بن سکے؟جن آبشاروں نے کانوں میں رس گھولا تھا وہ خاموش کیوں ہو گئیں؟ کیا پت جھڑ کا موسم مستقل ہو گیا ؟ ان پیغامات میں بہت سی باتیں سوچنے کی ہیں ۔ کچھ سمجھنے کی ہیں اور اکثر باتوں کا تعلق عمل کرنے سے ھے ۔ میں نے آج تک جتنے سفرنامے پڑھے ہیں ان میں مصنف کے مشاہدات چھاۓ رھتے تھے۔ لیکن شیر دریا میں کردار خود بولتے رھے ۔اس کتاب کو پڑھ لینے سے بہاروں کی تلاش کا جو جزبہ سرد پڑ گیا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو گیا ھے ۔ وہ بہاریں جو قوموں کو نشان منزل کی تلاش میں مدد دیتی ہیں۔ وہ بہاریں جن سے انسانوں کے دل و دماغ پر خوشبووں کی حکمرانی ہوتی ھے۔

%d bloggers like this: