مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لال شہید،خانِ قلات،اعلیٰ حضرت خان میر محراب خان||فضیل اشرف قیصرانی

تُف ہے مگر ان تاریخ دانوں پہ جو ٹیپو سلطان کے مزاحمتی کردار کو اپنی مزاحمتی تاریخ کے ثبوت کے طور چار سو اعزازیہ اٹھاۓ پھرتے ہیں مگر خان میرمحراب خان کا ذکر نہیں کر پاتے۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیرہ نومبر اٹھارہ سو انتالیس(13.11.1839) یعنی آج سے ٹھیک ایک سو بیاسی برس قبل کا دن اپنے آپ میں غیر معمولی تھا۔وہ دن اس قدر غیر معمولی تھا کہ آج دن تک نہ اس رات کی تاریکی چَھٹ سکی اور نہ ہی اس دن کی روشنی اور روشنائ کم ہوئ۔وہ رات تاریک تھی کہ اُس رات بلوچستان پر اُسکی صدیوں پرانی حکمرانی اور خود مختاری کا سورج برطانوی استمعار کے ہاتھوں غروب ہو چکا تھا ۔
وہ دن روشن از آفتاب و قمر تھا کہ اُس دن بلوچستان کے بہادر سپوت خانِ قلات،لال شہید خان میر محراب خان نے جانفشانی سے لڑتے ہوۓ اپنی بلوچ ننگ کا تحفظ یوں کیا کہ انکے خون سے لکھی جانے والی روشنائ سے لکھے گۓ الفاظ آج دن تک بلوچ اذہان کو منور کرتے چلے آ رہے ہیں۔
خان محراب خان وہ سرکش کہ لڑنے پہ آیا تو نہ تعداد کو دیکھا اور نہ استعداد کو،پناہ گزینی کے آداب پہ آیا تو شاہ شجاع افغان(بعد ازاں افغانستان پہ بادشاہی کرنے والا حکمران) کو باہوٹ لے لیا کہ بلوچ ننگ اپنے آپ میں وہ سرکش جذبہ ہے کہ عقل وخِرّد اِسکے آگے ہیچ ہیں،کچھی کی جنگ پہ گیا توباغی بلوچوں کو عام معافی دے دی مگر باغی سردار کو نہ بخشا کہ وہ اپنے ذہن میں اس خیال کو راسخ کر چکا تھا کہ بلوچ وطن پہ اب کے چاکر و گہرام کی جنگ نہیں دہرائ جاۓ گی،مکران کے گچکی باغیوں کی دو بار سرکوبی کی اور بلوچ قومی شیرازے کو شکستہ نہ ہونے دیا اور تو اور جب بلوچ سردار اس عظیم سرکش سے تنگ پڑ گۓ تو افغان مدد کو لپکے۔افغان لشکر پشین تک مقابلے کو آیا ضرور مگر خان میر محراب خان کی عظیم سپاہ کے دیکھتے ہوۓ بنا لڑے پسپا ہو گیا۔۔۔۔۔
وہ عظیم ،دانا ،اشرف ،مشرف ،سرکش اور بہادر خان میرمحراب خان بلوچ فوک میں لال شہید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مائیں آج تک بچوں کو لوری لال شہید کے نام دیتی ہیں،شعرا اپنے کلام کو اسکے پاک ذکر کے بغیر ادھورا سمجھتے ہیں اور گائیک اپنے سُر تب تک لگا نہیں پاتے جب تک لال شہید کو اپنے سازوں پہ ساز نہ کر لیں۔۔۔۔
ہماری مقامی تہذیب میں برطانوی سامراج کے سامنے سینہ سپر ہونے والے حکمرانوں میں سے ایک ٹیپو سلطان تھا اور دوسرا خان میرمحراب خان۔باقی تو مٹی کے وہ ڈھیر تھے جو صرف ڈھیر ہی ثابت ہوے۔
تُف ہے مگر ان تاریخ دانوں پہ جو ٹیپو سلطان کے مزاحمتی کردار کو اپنی مزاحمتی تاریخ کے ثبوت کے طور چار سو اعزازیہ اٹھاۓ پھرتے ہیں مگر خان میرمحراب خان کا ذکر نہیں کر پاتے۔وہ نہیں کر پاتے کیونکہ خان میرمحراب خان سی پیک کا پروجیکٹ نہیں،وہ نہیں کر پاتے کیونکہ خان میرمحراب خان بلوچستان سے نکلنے والا سونا نہیں اور وہ نہیں کر پاتے کیونکہ خان محراب خان گوادر نہیں ۔تاریخ دان نہ سہی تاریخ مگر تاریخ میں منصف رہی ہے۔تاریخ کی منصفی تو بس ایک سو بیاسی سال سے ایک ہی بات بتاتی چلی آ رہی ہے کہ گیم چینجر خان محراب خان ہوا کرتے ہیں سی پیک نہیں اور نہ ہی سی پیک کے نعرے۔۔۔
لال شہید میر محراب خان اس وقت بھی بین الاقوامی قانون جانتا اور سمجھتا تھا جب ابھی بین الاقوامی امور کے فن کا وجود بھی نہیں تھا ۔جب برطانیہ نے بلوچستان کے راستے افغانستان پر حملے کا راستہ مانگا تو خان میر محراب خان نے راستہ دینے سے انکار کر دیا کہ میں اپنا وطن اپنے ہمساۓ پر حملے کے لیے استمال نہیں ہونے دوں گا۔اسی انکار پر صرف تین سو جانثاروں کے ساتھ قلات کاوالی بلکہ آزادی،حریت اور بلوچ ننگ کاوالی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ کی سات ہزار طاقتور سپاہ جو کیل کانٹے سے لیس تھی اسکے سامنے اپنی ڈھاڈری بندوقوں کے ساتھ ڈٹ گیا۔
اسکی پاک سپاہ میں آٹھ نام ایسے تھے جو بار بار سونے کے پانی سے لکھیں جائیں تب بھی شاید بلوچ وطن انکا قرض نہ اتار سکے۔وہ آٹھ نام دیوان بچہ مل ،دیوان کھیم چند اور انکے چھ بیٹوں کے نام ہیں۔دیوان کھیم چند نے بطور ساتھی اور زمین زاد کے میر محراب خان سے اجازت چاہی کہ ہمیں بھی وطن کے دفاع کا متبرک موقع عنایت ہو،میر محراب خان کا جواب تھا کہ آپ ذمی ہیں اور میری پناہ میں ہیں آپ جائیں سکون سے اپنے گھر میں بیٹھیں آپکا دفاع میری خانگی کے فرائض میں سے ہے۔
ساتھیو جانتے ہو یہ سن کر دیوان کھیم چند نے کیا کہا؟دیوان کھیم چند نے جواب دیا کہ اعلیٰ حضرت اگر ہمارا مذہب ہمارے وطن کے دفاع کی راہ میں مزاحم ہے تو لائیے اپنا مبارک ہاتھ ہم اس پہ اپنا مذہب چھوڑنے کی بیعت آپ کو دیتے ہیں۔دیوان بچہ مل کو اجازت نہ ملی تو دیوان بچہ مل بنا اجازت اپنے پاک وطن کے دفاع کی خاطر جنگ میں کود پڑا اور لال شہید اور دیوان کھیم چندکا ہم سفر بن کے ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
برطانوی سپاہ جب کوئٹہ سے قلات کو روانہ ہوئیں تو قلات کے سازشی عناصر نے بلوچوں کے محراب کو مشورہ دیا کہ آپ کمزور ہیں اور تنہا ہیں۔آپکے زیرِ نگیں سردار آپکے ساتھ نہیں آپ ہتھیار پھینک دیں اور صلح کو ترجہیح دیں تو خان کا جواب تھا کہ،”جانتا ہوں کہ انگریز پورے لندن اور ہندوستان کے بادشاہ ہیں ۔اب انہوں نے کابل و قندہار کو بھی تسخیر کر لیا ہے۔اُن کو جو قوت و غلبہ حاصل ہے میں اس سے آگاہ ہوں اور انکا مقابلہ سخت مشکل ہے لیکن میں اس وطن،پاک وطن کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟میرے آبا نے اس گلزمین کو اپنا لہو دے کر حاصل کیا ہے۔خدا گواہ ہے کہ بغیر کسی ریا کے خالصتاً خدا کی رضا کو اپنا سر پیش کر رہا ہوں۔آئندہ جو ہو سو مگر مقام تشکر ہے کہ اپنی حیاتی میں کھبی کسی غیر کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا۔اپنی قوت پر حکمران رہا اور کسی زورآور کی اطاعت نہیں کی۔اس پاک وطن کے دفاع کو اپنا سر کیوں نہ قربان کر دوں؟”
آئیں ہم آج کے اس خاص دن کو لال شہید کے پاک ذکر سے منور کریں اور انکی تاریخی مزاحمت کو اپنے گمان میں یوں راسخ کریں کہ پھر کوئ برطانیہ کسی میرمحراب خان کے سامنے نہ آ سکے۔آۓ تو یہ سوچ کر آۓ کہ محراب بلند ہوا کرتے ہیں،زمین زاد اونچے ہوا کرتے ہیں،وطن واس چاہے کمزور ہوں مگر مستقل وہی ہوتے ہیں،فراز صرف دار پہ جھولنے والوں کا مقدر ہوا کرتا ہے اور قبضہ گیر چاہے زور آور ہو مگر وہ نیچ ہوتا ہے،کم ظرف ہوتا ہے،عارضی ہوتا ہے اور اسکے مقدر میں سواۓ نیچ ہونے کے کچھ نہیں ہوتا۔
زمین زاد زندہ آباد
وطن واس زندہ آباد
قبضہ گیر مردہ آباد
اور
قبضہ گیریت ہزار بار مردہ آباد

%d bloggers like this: