اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلیٹ پر لکھنے کا رواج ۔۔۔۔||گلزار احمد

ماضی میں ہم پرایمری کلاس تک تختی ۔دوات ۔سلیٹ اور سلیٹی سے لکھتے تھے۔ ہمارے بزرگ بہت ذھین تھے جنہوں نے تختی سلیٹ پر لکھنے کا رواج ڈالا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی میں ہم پرایمری کلاس تک تختی ۔دوات ۔سلیٹ اور سلیٹی سے لکھتے تھے۔ ہمارے بزرگ بہت ذھین تھے جنہوں نے تختی سلیٹ پر لکھنے کا رواج ڈالا۔
پھر ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں کاغذ کی کاپیاں اور پنسل ۔اور مارکر کے استعمال کو شروع کیا۔ جو بہت مہنگا اور نقصان دہ ہے۔
نقصان دہ اس لیے کہ کاغذ دراصل درختوں کو کاٹ کے بنایا جاتا ہے جس سے بے دریغ درخت کاٹ کر جنگلات ختم ہو گیے اور زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگا۔گلیشیر پگھل رہے ہیں ۔بارشیں رک گئیں اور echo
سسٹم تباہ ہو گیا۔ ادھر کاغذ کوڑے میں پھینک کر گندگی بڑھ جاتی ہے۔
قلم دوات سلیٹ غریب کی پہنچ میں تھی کیونکہ یہ Recycle کی طرح استعمال ہوتے تھے۔
اب غربت کی وجہ سے پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔
May be an image of person and child
مگر جتنا مرضی ہے لوگوں کو شعور دے دیں ہم نے مغرب کی تقلید نہیں چھوڑنی۔

مٹی کے برتن ۔۔۔

ہمارے ہاں مٹی کے برتن گھروں میں استعمال ہوتے تھے۔پانی کا گلاس ۔گھڑا۔کٹوی۔صراحی۔پلیٹیں۔مَٹ ۔پرچ پیالے ۔پتروٹے۔ غرض ہر چیز مٹی کی بنی ہوتی جو یہاں کے کاریگر کمہار بناتے ۔ڈیرہ میں کمہاراں والا محلہ اب بھی مشھور ہے ۔ ایک سو سال پہلے ڈیرہ میں شادی کے موقع پر کمہاروں کو سیکڑوں پلیٹیں پتروٹے بنانے کا آرڈر دیا جاتا جس میں شادی کا کھانا پیش کیا جاتا۔ پھر ہم نے ترقی کی پیتل۔تانبے ۔جست ۔تام چینی۔پلاسٹک ۔اور چینی کے برتن استعمال کرنے شروع کیے۔ بلکہ مسگراں بازار آج بھی موجود ہے جہاں مسگر یا ٹھٹھار تانبے پیتل کے برتن بناتے اور فروخت کرتے۔ وقت نے پلٹا کھایا تو ہماری ہاتھ میں cooker اور non stick
برتن آ گیے۔ معاشرے میں بیماریاں بڑھنے لگیں تو تحقیق ہوئی پتہ چلا یہ جدید برتن صحت کے دشمن ہیں۔
اب کہا جا رہا ہے مٹی کے برتن ہی سب سے بہتر چوائس ہے۔
ہماری مصیبتوں میں غیر ضروری دوائیاں ۔کپڑے ۔برتن ۔گھروں کی ڈیکوریشن اور صنعتی ترقی کے ساتھ مصنوعی مال کی بھرمار شامل ہے۔آج ہمارا اناج ۔دودھ ۔سبزیاں۔پھل ۔گھی۔شھد ۔چینی۔دوائیاں سب مصنوعی ہیں جو زندگی کے لیے مضر ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ترقی کرتے کرتے ریورس گیر لگا کے پیچھے چل پڑے ہیں۔
مگر ہم سوچتے نہیں کیونکہ ہمیں سوچنے کی عادت نہیں ہمیں جو لوگ چاہیں آنکھوں پر پٹی چڑھا کر گھماتے رہتے ہیں اور پھر غلام بنا لیتے ہیں۔

%d bloggers like this: