مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافی نذیرلغاری کے سرائیکی ناول "وساخ "کی ملتان میں رونمائی|| محمد صابر عطا

مصنف نذیر لغاری نے کہا کہ میں نے اس ناول میں جیتے جاگتے ان کرداروں کو شامل کیا ہے جو اس وسیب کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو ایسے ہرکارے ہیں جو اپنی وسوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں میں نے اس وسیب پر ہونے والے تاریخی جبر سے لوگوں کو روشناس کرایا ہے

محمد صابر عطا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔

کسی بھی زبان کا ادبی سفر اس وقت پختگی کے مقام پر پہنچتا ہے جب اس زبان میں نثر پر کام شروع ہوجائے سرائیکی زبان کی خوش بختی یہ ہے کہ اس زبان میں دہائیاں قبل ہی سرائیکی نثر پر کام شروع کر دیا گیا کہانی،افسانہ ،مضامین اور اب ناول پر شاندار کام سامنے آرہا ہے اور اس شاندار کام میں وساخ ناول کی اشاعت نے مزید اضافہ کیا ہے۔یہ ناول واقعی غیر روائیتی انداز میں لکھا گیا ہے یہ غیر روائیتی ہوتا بھی کیوں نہ ۔۔۔کیونکہ اس ناول کو لکھنے والا ایک صحافی ہے اور اس نے اس ناول کو اس خوبصورتی سے لکھا ہے جسے شاید اور مصنف نہ لکھ پاتا اس ناول کی اشاعت نے سرائیکی وسیب سمیت پورے ملک میں ایک ہلچل مچا دی ہے کراچی سے اس کی رونمائی کا ہونے والا سفر دو صوبوں کے متعدد شہروں تک پہنچ چکا ہے ایک ہی ہفتے میں لاہور اور اس کے بعد گزشتہ روز ملتان ٹی ہاؤس میں اس کی تقریب رونمائی رکھی گئ ۔اور یہ تقریب دیگر تقاریب سے ممتاز تھی ممتاز ہوتی بھی کیوں نہ ۔۔دھرتی کا سپوت چالیس سال بعد گھر کو اپنے وسیب کو واپس آیا ہے اور وسیب کے لیے شاندار ناول کا تحفہ لیکر آیا ہے نذیر لغاری اس دھرتی کا وہ سپوت ہے جو جدوجہد کا عملی نمونہ ہیں۔وساخ ناول کی ملتان میں ہونے والی تقریب واقعتاً دوسری تقاریب سے زیادہ خوبصورت اور یاد گار تھی۔

تقریب کا اہتمام معروف صحافی جناب جاوید اقبال عنبر نے ملتان ٹی ہاؤس میں کیا۔تقرہب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ناچیز کے حصے میں آئ۔نعت شریف کا ہدیہ سید ساجد فہیم نے پیش کیا جبکہ جاوید شانی نے کافی پیش کی۔
تقریب کی نظامت اسلام آباد سے آئیں خاتون صحافی و دانشور ڈاکٹر سعدیہ کمال اور جاوید اقبال عنبر نے کی۔صدارت وائس چانسلر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان منصور اکبر کنڈی نے جبکہ مہمان خصوصی نذیر لغاری تھے۔

تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے نامور شاعر ودانشور رفعت عباس نے کہا کہ کہانی تب تک ناول نہیں بنتی جب تک ناول اپنی وسوں کے رومانس اور افسردگی میں نہیں لکھا جاتا انہوں نے کہا کہ سرائیکی وسیب کے لوگ "مونجھ”کے شیدائی ہیں اور ناول مونجھ سے باہر نکلنے کا نام ہے اور” وساخ "ناول کے ذریعہ مصنف نذیر لغاری نے سرائیکی وسیب کے لوگوں کو مونجھ سے نکالنے کا کام کیا ہے انہوں نے کہاکہ ناول کو نیا قاری درکار ہے اور وساخ وسوں سے نیا قاری پیدا کرے گا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر منصوراکبرکنڈی نے کہا کہ لکھت اثر رکھتی ہے اس لیے سرائیکی وسیب کے لوگ زیادہ سے زیادہ لکھیں اور اپنی تاریخ،ثقافت،اور وسیب پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سطح پر کام کریں انہوں نے کہا کہ میں نسلا پٹھان ہوں مگر مجھے سرائیکی کہلوانا فخر محسوس ہوتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ” وساخ "ناول اس وسیب کا منفرد اور غیر روائیتی ناول ہے جس کی لکھت میں لوگوں کو بیدار کیا گیا ہے ۔

گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر نخبہ تاج لنگاہ نے کہا کہ وسیب کو ضیاء الحق کے دور حکومت میں ٹارگٹ کیاگیا یہاں پر ملا ازم ، اور جاگیر داری کو سرکاری سرپرستی میں پروموٹ کیاگیا جس سے وسیب سمیت ملک بھر میں ترقی کے راستے مسدود کردیے گئے ایک نیا محاذ کھول کر فرقہ بازی کی آگ لگائی گئی جس کے اثرات ابھی تک معاشرے میں موجود ہیں۔اس ناول میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ایسے سب کرداروں کو بے نقاب کیا گیا ہے انہوں نے وساخ ناول کو سرائیکی ادب میں جدید ناول نگاری کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا نذیر لغاری نے اس ناول کو جدید ادب سے جوڑا ہے۔نئ نسل اس ناول کو پڑھ کر سرائیکی وسیب کی تاریخ سے روشناس ہو سکے گی۔

بہاولپور یونیورسٹی کے پروفیسر جاوید چانڈیو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناول صرف سرائیکی وسیب کا نہیں بلکہ وادی سندھ کی تاریخ کا عکاس ہے۔انہوں نے کہاکہ مصنف نذیر لغاری نے اپنی زندگی کے مشاہدات ،تجربات اور واقعات اس ناول میں لکھے ہیں انہوں نے کہا کہ مصنف وسیب کا وہ قصہ گو ہے جس نے اپنی تحریر سے لوگوں کو بیدار کیا ہے۔

مصنف نذیر لغاری نے کہا کہ میں نے اس ناول میں جیتے جاگتے ان کرداروں کو شامل کیا ہے جو اس وسیب کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو ایسے ہرکارے ہیں جو اپنی وسوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں میں نے اس وسیب پر ہونے والے تاریخی جبر سے لوگوں کو روشناس کرایا ہے انہوں نے کہاکہ جاگیرداری صرف زمین کی نہیں ہے روحانی جاگیرداری جو درگاہوں سے جڑی ہوئ ہے۔ملا ازم،روحانی و سماجی جاگیرداری نے اس وسیب کوآگے نہیں بڑھنے دیا یہاں کے لوگوں کو جکڑے رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ سرائیکی سوسائٹی فلسفے کو نہیں پڑھ رہے۔اس سوسائیٹی کے لیے یہ ناول ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ناول سابقہ سرائیکی نالوں کی تصدیق ہے ۔

صدارتی ایوارڈ یافتہ کہانی کار مزار خان لاشاری نے کہا کہ میں نے اس ناول کو سیاسی ورکر کی عینک سے پڑھا ہے اس ناول میں ریاستی مشینری اور اس کے غلام طبقات کو بے نقاب کیا گیا ہے جو اس وسیب پر قبضہ گیریت کو سپورٹ کرتے ہیں انہوں نے کہا انہی کرداروں کی وجہ سے تھل کی دو تحصیلوں چوبارہ اور منکیرہ کی ایک لاکھ ایکڑ زمین پنڈی اور لاہور کے قبضہ گیروں کو تحفہ کردی گئ ہے ۔انہوں نے کہا اس وسوں کو اب پتہ چل گیا ہے کہ نعرے اور تحریر میں فرق ہوتا ہے لوگ اب اپنے لکھاریوں شاعروں اور مصنفوں پر اعتماد کرنے لگ گئے ہیں۔اور یہ ناول اسی اعتماد کی فضاکو اور بھی بڑھائے گا انہوں نے کہاکہ اس ناول کے مصنف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اس میں ڈکشن کے اعتبار سے ایک لفظ بھی کسی زبان سے مستعار نہیں لیا سب لفظ سرائیکی کے استعمال کیے ہیں۔یہ ناول سرائیکی وسیب کے سیاسی ماحول کو تقویت دے گا اور اسے پولیٹیکل ورکرز کو پڑھنا بھی چاہئیے۔
معروف محقق،دانشور عبدالباسط بھٹی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وساخ ناول کے ذریعہ نذیرلغاری نے وسیب کے اندھوں کو روشنی،گونگوں کو زبان،بہروں کو کان بخشے ہیں۔
یہ ناول پورے وسیب کی کتھا ہے
معروف شاعر ڈاکٹر خالد اقبال نے کہا کہ وساخ ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں زندگی جیتی ہے ۔یہ وساخ ناول اس زندگی پر گفتگو ہے یہ ناول وسیب کا مہا بیانیہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ناول میں وہ سچ بیان کیا گیا ہے جو تاریخ پر مشتمل ہے اور یہ سچ وقت کی ضرورت ہے۔

سرائیکی تریمت سانجھ کی راہنما ادی نیناں نے کہا کہ اس ناول میں وسیب کی عورت کے کردار کو نشابر کیا گیا ہے عورت پر ہونے والے ظلم کو بیان کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ عورت کے کردار کے بغیر کوئ تحریک یا سیاست نہیں چل سکتی اس لیے وسیب کی عورت کو بیدار کرنے میں اس ناول کا اہم کردار ہوگا۔

پریس کلب اسلام آباد کی نائب صدر ڈاکٹر سعدیہ کمال نے کہا کہ وساخ ایک ایسا ناول ہے جس میں وسیب کی مرتی،مٹتی ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے ایک صحافی کی نگاہ سے لکھا گیا یہ ناول منفرد لکھت ہے متروکہ ہوتے الفاظ اس میں زندہ کیے گئے ہیں۔تصوف،انسانیت،روحانیت،جمہوریت کے قتل سب واقعات اس ناول میں موجود ہیں۔

معروف دانشور محمود مہے نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عصر حاضر میں "وساخ”اجڑ چکی ہے وہ وساخ جہاں زندگی جینے کا مکالمہ ہوتا ہے جہاں کا ہونے والا اکٹھ مستقبل طے کرتا ہے جو وساخ امن و محبت کی پناہ گاہ ہوتی ہے وہ اجڑتی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ کرہ ارض کو اگر بچا سکتی ہے تو وہ "وساخ”ہے انسان آج ہزاروں رابطوں کے باوجود اکیلا کھڑا ہوا ہے۔کلیھپے کا شکار ہے۔وساخ وہ پناہ گاہ جہاں انسان مٹتی ثقافت،مرتی انسانیت کو درپیش دکھ ختم کر سکتا ہے اور یہی دکھ نذیر لغاری نے اپنے سرائیکی ناول وساخ میں بیان کیے ہیں اس ناول میں آگے بڑھنے کا راستہ بتایا گیا ہے اور ان رکاوٹوں کو بھی بے نقاب کیا ہے جو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔

شعبہ سرائیکی کے انچارج قاضی عابد نے گفتگو میں کہا کہ نصاب نے اصل تاریخ کو جگہ نہیں دی اس لیے اگر کوئ حقیقی تاریخ لکھ رہا ہے تو وہ شاعر،افسانہ نگار،ناول نگار ہے،پچھلے کئ سالوں سے روائیتی انداز سے ہٹ کر تحریر لکھی جا رہی ہےوساخ بھی ویسی منفرد تحریر ہے

سرائیکی تریمت عوامی تحریک کی راہنماء عابدہ بتول نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نذیر لغاری نے اس وسیب کی ایسی دکھ بھری داستانوں کو اس ناول میں لکھا ہے جنہیں کوئ بھی اخبار شائع کرنے کی جرات نہیں رکھتا ۔نذیر لغاری اس وسیب کا اس عہد کا سچا اور کھرا لکھاری ہے

تقریب کے آرگنائز جاوید اقبال عنبر نے کہا کہ وساخ ناول نے سرائیکی ادب میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اس ناول نے فکری طور پر ایسے در واکیے ہیں جہاں سے آج کا قاری ایک نئ دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور ایک نئ دنیا قائم کر سکتا ہے جہاں اس کی بقا ہے۔سرائیکی وسیب نذیر لغاری کا مشکور ہے جس نے اس ناول کے ذریعے انہیں راہ دکھائی اور استحصالی طبقات کو ننگا کیا۔
تقریب کے دوران نامور شعراء امان اللہ ارشد اور غیور بخآری نے سرائیکی کلام بھی پیش کیا۔

تقریب میں ڈیرہ اسماعیل خان،بھکر،لیہ،رحیم یار خان ،بہاولپوراور کراچی سے امجد کلیار،صحافی شوکت اشفاق،محمد عرفان ڈاہا،ارشد بخآری ،ملک افضل جگوال ایڈووکیٹ اور دیگر نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

محمد صابر عطا کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: