مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تین سال میں چینی کی قیمت 53؍ سے 160؍ روپے کلو ہوگئی

ایف بی آر کی اسپیشل آڈٹ ٹیم کے مطابق 81؍ شوگر ملوں کو مجموعی طور پر 469؍ ارب روپے کا ٹیکس دینا ہے اور ان میں سے کچھ ملیں ایسے سیاست دانوں کی ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ یا شراکت داری میں ان صنعتی یونٹس کے مالکان ہیں۔

زاہد گشکوری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد (:سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے چینی کی قیمتوں میں 200؍ فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اور چینی کی قیمت 53؍ روپے سے بڑھ کر 160؍ روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ گزشتہ تین سال میں ہول سیل قیمت 47؍ سے بڑھ کر 88؍ روپے ہوگئی ہے۔

 اس اضافے سے معلوم ہوتا ہے کہ نگرانی کرنے والے اداروں کا چینی بنانے والوں، ہول سیلرز اور آڑھتیوں (مڈل مین) پر ضابطہ یا کنٹرول نہیں، اس عرصے کے دوران ان تینوں فریقوں کی جانب سے مجموعی طور پر 17؍ ارب روپے کا سیلز ٹیکس ادا کیا جو 8؍ فیصد سے بڑھ کر اب 17؍ فیصد ہوگیا ہے۔

جیو ٹی وی کی جانب سے سرکاری ریکارڈ اور نگران اداروں کی فائلوں کا جائزہ لیا اور ساتھ ہی سرکاری عہدیداروں، شوگر مل مالکان اور گنے کے کاشت کاروں اور ان کے نمائندوں سے بھی بات کی تاکہ اصل حقیقت کا پتہ لگایا جا سکے۔

 مارکیٹ کے رجحانات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت مل مالکان کو کرشنگ سیزن کے دوران بروقت کرشنگ پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہی تو چینی کی قیمتوں میں معمولی کمی آ سکتی ہے۔

 چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے شوگر مل مالکان، ہول سیلرز اور مڈل مین (سٹہ مافیا) نے مل کر ستمبر 2018ء سے اکتوبر 2021ء کے درمیان 270؍ ارب روپے کا منافع ہڑپ کیا اور اندازہ ہے کہ سالانہ کھپت 6؍ ارب کلوگرام (6؍ ملین میٹرک ٹن) رہی۔

 اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافع اُس عمومی تجارتی منافع سے الگ ہے جو شوگر انڈسٹری نے مل کر گزشتہ کرشنگ سیزن(2021.22) کے دوران 141؍ ارب روپے کی صورت میں کمایا۔

عبوری اعداد و شمار سے آگاہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق منافع خوروں نے اکتوبر2021سے 6؍ نومبر تک زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جبکہ دسمبر 2020سے فروری 2021اور ستمبر 2019سے مارچ 2020تک بھی بھاری منافع کمایا گیا اور اس وقت اوپن مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں کو پر لگ گئے تھے۔

 اکتوبر 2021ء میں چینی کی فی کلو قیمت 107.70؍ روپے تھی جبکہ پیداواری لاگت وہی تھی جبکہ ٹرانسپورٹ کی مد میں اخراجات میں معمولی اضافہ ہوا تھا۔

گزشتہ ایک ہفتے میں چینی کی قیمت اوسطاً 140؍ روپے فی کلو ہوگئی۔ اگست2021ء سے ستمبر 2021ء تک چینی کی قیمت 90سے 110؍ روپے فی کلو رہی جبکہ حکومت اشیائے خوردنوش پر مسلسل ٹیکسوں میں ریلیف دیتی رہی اور اربوں روپے کی خصوصی سبسڈی دیتی رہی۔

 سرکاری حکام نے بھی اعتراف کیا کہ شوگر سیزن (2020-21ء) کے دوران چینی کی قیمتوں میں پندرہ فیصد (52سے 73روپے) اضافہ ہونا تھا جس کی وجہ مہنگائی اور مارکیٹ میں پائی جانے والی بے یقینی تھی حتیٰ کہ گنے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ لیکن قیمتوں کا حالیہ تباہ کن اضافہ مل مالکان کے اس موقف سے ہم آہنگ نہیں کہ پیداواری قیمت بڑ ھ گئی ہے۔

 وزیر مملکت برائے اطلاعات نے امید ظاہر کی کہ کرشنگ شروع ہونے والی ہے اور جلد قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ شوگر سبسڈی اور قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات بھی کچھوے کی چال سے بڑھ رہی ہے اور ڈیڑھ سال کے بعد بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

جیو نیوز کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ چینی کی اوسط پیدواری لاگت اور ٹیکس کے بعد بھی چینی کی قیمت جنوری 2020سے اکتوبر 2021ء تک 63.3؍ سے 72.7؍ روپے فی کلوگرام تک تھی لیکن منافع خور اسے اوپن مارکیٹ میں 110؍ روپے فی کلو کے ریٹ پر بیچتے رہے۔ ٹیکس کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں ٹیکس کے بعد قیمت 53.1، 2020ء میں72.7؍ روپے فی کلو رہی اور آئندہ کرشنگ سیزن میں یہ قیمت 83.9سے 88.1؍ فی کلو تک رہنے کا امکان ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شوگر انڈسٹری اور کمپنیوں نے2019ء میں 20.93، 2020ء میں15.93؍ روپے فی کلوگرام منافع کھایا جبکہ2020-21ء میں کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے تک اضافی 53؍ ارب روپے کا منافع کھایا گیا۔

حکومت نے قیمتوں میں زبردست اضافے پر قابو پانے کیلئے اعشاریہ پانچ میٹرک ٹن چینی امپورٹ کی اور نگران اداروں نے منافع خوروں کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا لیکن مل مالکان شوگر کمیشن کی سفارشات کیخلاف عدالت پہنچ گئے۔

 شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ 1950ء کے تحت صوبوں کو اختیار ہے کہ وہ ملوں کیلئے کرشنگ سیزن کا اعلان کریں، اسے کنٹرول کریں، مانیٹرنگ اور فکسنگ کریں۔38؍ شوگر ملیں سیاسی تعلقات رکھنے والے لوگوں کی ہیں جن میں سے 30؍ نامور خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

درجن بھر شوگر ملیں نواز اور شہباز شریف فیملی کی ہیں۔ اومنی گروپ اور زرداری گروپ کی ملیں مکمل طور پر فعال نہیں ہیں یا پھر عدالتی احکامات اور تحقیقاتی ایجنسیوں کی گزشتہ پانچ سال کے دوران مداخلت کی وجہ سے بند ہیں۔

 فی الوقت ہمایوں اختر، جہانگیر ترین، چوہدری برادران اور خسرو بختیار سے فیملی سے جڑا آر وائی کے گروپ پاکستان میں شوگر انڈسٹری میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔

پاکستان چینی کی پیدوار کے لحاظ سے 11واں بڑا ملک ہے اور یہاں 89؍ شوگر ملیں ہیں جو سالانہ کرشنگ سیزن کے دوران 60؍ ملین میٹرک ٹن یعنی 600؍ ارب کلوگرام چینی تیار کرتی ہیں۔

جیو نیوز کی تحقیقات کے مطابق، 89؍ میں سے 23؍ ملیں فعال نہیں ہیں جس سے تین لاکھ کاشت کار متاثر ہو رہے ہیں۔

ان میں سے پنجاب میں پانچ غیر فعال ملوں میں سے چار شریف فیملی کی، سندھ میں 14؍ غیر فعال میں سے 6؍ اومنی گروپ اور 2؍ زرداری گروپ کی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں ایک شوگر مل غیر فعال ہے۔

چینی کے مینوفیکچررز نے مجموعی طور پر 2020ء میں 30؍، 2019ء میں 28؍ جبکہ 2018ء میں 26؍ ارب روپے بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکس ایف بی آر کو جمع کرایا۔

 ایف بی آر کی اسپیشل آڈٹ ٹیم کے مطابق 81؍ شوگر ملوں کو مجموعی طور پر 469؍ ارب روپے کا ٹیکس دینا ہے اور ان میں سے کچھ ملیں ایسے سیاست دانوں کی ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ یا شراکت داری میں ان صنعتی یونٹس کے مالکان ہیں۔

 کارٹیلائزیشن، قیمتوں کے تعین (فکسنگ) اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کرنے کے الزامات کے تحت مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے بھی اِن ملوں پر 44؍ ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی اپنی رائے ہے اور وہ چینی کے موجودہ بحران کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیں۔

ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین اسکندر خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ شوگر انڈسٹری کیخلاف کریک ڈائون کی بجائے اُسے دوستانہ ماحول فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وزیراعظم خان کو چند ماہ قبل ہی بحران سے آگاہ کر دیا تھا، مل مالکان اس بحران اور قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے ذمہ دار نہیں، یہ مڈل مین اور ہول سیل ڈیلرز کا کیا دھرا ہے جو ناجائز منافع کما رہے ہیں۔

چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے پر وزیر اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ وہ عدالتوں سے حکومتی کارروائی کیخلاف سٹے آرڈر حاصل کرنے والی شوگر ملز سے نمٹیں۔

 وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا کہ جولائی سے شوگر ملز نے اس قاعدے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے اور اس لیے ہماری حکومت کچھ کرنے سے قاصر رہی۔

 وزیراعظم عمران خان کے اس عذر کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدالتوں نے ایف آئی اے اور نیب کو چینی کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے کی تحقیقات سے نہیں روکا۔

نیب اور ایف آئی اے دونوں نے منافع خوری میں ملوث ملرز اور سٹہ مافیا کے خلاف تحقیقات جاری رکھی لیکن ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

%d bloggers like this: