گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
آج سے سو سال پہلے ہندوستان کی تہزیب ابھی ترقی کی شاہراہ پر رینگ رہی تھی جب یورپ اس وقت مشینی اور صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ ہماری بیل گاڑیوں کے پہیے لکڑی کے بنے ہوۓ تھے اور راستے کچے تھے اس سے آپ ہماری رفتار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تصاویر میں ایک رہٹ نظر آ رہا ہے وہ بھی تمام لکڑی کا بنا ہوا ہے ۔ گھر بھی کچی مٹی کے ہیں۔ ہم نے نئی ٹکنالوجی کو اپنانے میں دیر کی تو سیکڑوں سال پیچھے چلے گیے۔
آج بھی ہم دیکھتے ہیں ایشیا اور مشرقی بعید کے وہ ممالک جنہوں نے نئ ایجادات سے فوری فاعدہ اٹھایا وہ ہم سے آگے ہیں۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر نئی ٹکنالوجی کو متعارف کرانے پر تو بہت کم کام ہوتا ہے مگر ہماری قوم سیاست اور مناظرے کرنے میں کمال رکھتی ہے۔ہمارے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جنگ عظیم کا منظر جاری ہے اور بحث اس پر ہو رہی ہے ۔۔کاں چٹے یا کالا۔
خیر کسی نے رکنا تھوڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
”شیر دل رانی، مائی چھاگلی (وسیب یاترا :8)||سعید خاور
”چِڑیاں اُٹھو کوئی دھاں کرو“ (وسیب یاترا :7)||سعید خاور
” "دل تاں آہدے یار دی وَستی ڄُلوں”(وسیب یاترا :6)||سعید خاور