نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہنگائی، تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ضرورت||سارہ شمشاد

حکومت اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپوزیشن سمیت دیگر تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر ے اور معیشت کو سنبھالا دینے کے حوالے سے جامع لائحہ عمل تیار کرے۔ یہ وقت ذاتی اختلافات کا نہیں بلکہ قومی مفاد میں بات کرنے کا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف بین الاقوامی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔ ارجنٹائن پہلے، ترکی دوسرے اور برازیل مہنگائی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے بھی سب سے کم درجے والے اور بدترین ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈیکس 2021ء میں پاکستان 139ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر ہے۔ ان اعدادوشمار کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ واہ رے تبدیلی تیرا کیا ہوگا، پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بنادیا ہے جس کے باعث دنیا یہ سوچ رہی ہوگی کہ پاکستان امیر ملک ہے اور اس کے عوام مہنگائی کو برداشت کرپاتے ہونگے تبھی تو حکومت مہنگائی کے درجوں میں بہتری کروانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مزدور کی اجرت 10ہزارروپے سے کم ہو، دنیا کے چوتھے مہنگے ترین ملک کے طور پر عوام کیسے اپنی ضروریات پوری کرپاتے ہوں گے۔ اس کی طرف اگر حکومت تھوڑی سی توجہ کرنے کی زحمت کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ خاص طور پر اس وقت جب آئی ایم ایف کی جانب سے ڈومور کا مطالبہ مزید کیا گیا ہے جبکہ بجلی 2روپے مزید مہنگی کرنے کا بھی عندیہ حکومتی عہدیداران کی جانب سے دیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر 180سے 200روپے تک جانے کا بھی خدشہ ہے۔ ان اعدادوشمار کے بعد یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وطن عزیز میں مہنگائی کاایک بڑا ریلا آنے کو بالکل تیارہے جس کے باعث پاکستان دنیا کے مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر بھی آسکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں معیشت کی دگرگوں صورتحال ناگفتہ بہ ہے تو دوسری جانب 3ماہ کے دوران پاکستانی 24ارب 80کروڑ روپے کی چائے پی گئے ہیں تو اس پر تنقید شروع کردی گئی۔عوام کو چائے نہ پینے کے مشورے یہ کہہ کر دیئے جارہے ہیں کہ نزک معاشی حالات میں عوام کو چائے پر فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ ویسے ایسے نادر مشورے دینے میں ہمارے حکمران کبھی بھی پیچھے نہیں رہے اسی لئے تو چند روز قبل علی امین گنڈاپور نے عوام کو چینی کے دانے کم استعمال کرنے کا ’’نایاب‘‘ مشورہ بھی دیا تھا۔ یعنی ہمارے حکمرانوں کے نزدیک عوام کو ہی ہر چیز کی قربانی دینی چاہیے شاید ان کے نزدیک عوام نامی مخلوق کو زندہ رہنے کا چونکہ کوئی حق نہیں ۔
FATF نے پاکستان کو گرے لسٹ میں مزید رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہو یا FATF نامی ادارے یہ فیصلے سیاسی بنیادوں پر ہی کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصدپاکستان کو دبائو میں رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ پاکستان نے FATF کی جانب سے دی جانے والی مطالبات کی فہرست میں سے 90فیصد سے زائد اقدامات تو پہلے ہی اٹھالئے تھے لیکن اس کے باوجود پچھلی مرتبہ بھی پاکستان کو FATFکی واچ لسٹ یعنی گرے لسٹ میں رکھا گیا اور اب جب پاکستان نے آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط تو پوری کردی ہیں تو اس کی جانب سے بھی ڈومور کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے کہ جب عوام بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن عالمی مالیاتی فنڈ نامی ادارہ تو اپنی انا کی تسکین کے لئے عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکہ کو فضائی بیس استعمال کرنے کا غیرملکی نشریاتی ادارے نے جو دعویٰ کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا کہ امریکہ اور اس کے گماشتے پاکستان کو جھکانے میں ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لئے چاہے جتنے مرضی عوام کش فیصلے کرلے، آئی ایم ایف نامی محبوبہ نے کبھی رام ہی نہیں وہنا۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو جس طرح عالمی منڈی سے جوڑا گیا اس کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ سب کچھ تو آئی ایم ایف کو رام کرنے کی کوشش تھی اور اب ایک مرتبہ پھر جب FATF نے پاکستان کو یہ ’’خوش خبری‘‘ سنادی کہ اسے کو بدستور گرے لسٹ میں ہی رہنا پڑے گا۔ افسوس کہ وہ عالمی ادارے جن کے قیام کا مقصد مانیٹرنگ تھا، آج وہ سیاسی منشی کا کردار اس احسن انداز میں نبھارہے ہیں۔
پاکستان FATF کی جتنی مرضی شرائط پوری کرے اس کو معاشی دبائو کا شکار رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہر صورت کی جائے گی تاکہ وہ آئی ایم ایف اور مالیاتی اداروں کے دبائو میں آکر ساہوکاروں کی شرائط ماننے پر مجبور ہوجائے اور یوں وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہوسکیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اسمبلی میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گورنر سٹیٹ بینک وہی صاحب ہیں جنہوں نے مصر کی معیشت کو دیوالیہ ڈیکلیئر کرادیا اور اب وہ خدانخواستہ پاکستانی معیشت کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خواجہ آصف کی بات کو تقویت گورنرسٹیٹ بینک کےپریس کانفرنس میں دیئے جانے والے غیرسنجیدہ بیان سے ملتی ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اوورسیز پاکستانیوں کو فائدہ ہوا ہے شاید موصوف یہ سمجھنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ پاکستان میں جو 25کروڑ لوگ رہتے ہیں ان میں سے نصف آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ حکومت کی جانب سے مہنگائی در مہنگائی کا تحفہ بنا کسی وقفے کے تواتر کے ساتھ دے کر ان کی زندگیوں کو انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے کہ اب بجلی کی قیمت میں 3سے 6روپے فی یونٹ کی بھی آواز لگادی گئی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے مزید قرضے کے حصول کے لئے موٹرویز کے بعد ایئرپورٹس کو بھی گروی رکھنے کے لئے حکومت کمر کس چکی ہے جس کا لامحالہ نقصان ہمارے ایٹمی اثاثوں کو ہی ہوگا۔ یعنی عالمی ساہوکار بڑی تیزی کے ساتھ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی جانب گامزن ہیں کیونکہ وہ ان کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام آنکھ میں شہتیر کی طرح چھبتا ہے اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پاکستان قرض پر قرض لے کر معیشت کو چلارہا ہے لیکن کوئی یہ سمجھنے کی کوشش سرے سے ہی نہیں کررہا ہے کہ وطن عزیز کے غریب عوام کسی صورت بھی مزید بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
عمران خان جو 2018ء سے قبل قرض لینے والا وزیراعظم کس طرح امریکہ اور دیگر بڑی معاشی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، کی دہائیاں دیتے تھے اور اب جب 3برس گزرنے کے باوجود معیشت کو سنبھالنا تو درکنار بالکل ہی برباد کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم نے بڑے دنوں کے بعد یہ بیان دیا ہے کہ وہ مہنگائی کے اثرات سے آگاہ ہیں ایسے میں عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ہمارے وزیراعظم کو کئی دنوں بعد مہنگائی سے بے حال عاوم کا علم ہوا ہے تو کیا وہ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ اس مہنگائی کے عذاب سے عوام کو نجات دلوانے کے لئے وہ کب حکمت عملی مرتب کریں گے کیونکہ منافع خور دمافیا حکومت کی گرفت سے بالکل ہی باہر نکل چکا ہے اسی لئے تو شتر بے مہار مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی کے خلاف احتجاج کی اپیل اگرچہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے دی گئی ہے لیکن چلو عوام کو کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، کچھ ریلیف ملنے کی امید تو بندھی ہے۔ حکومت کی مہنگائی عالمی سطح پر ہونے کی منطق کو عوام اس وقت تک بالکل بھی تسلیم نہیں کریں گے جب تک حکومت اپنے وفاقی وزراء کے اللے تللوں کو کنٹرول نہیں کرے گی ان حالات میں جب معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے کیا ہی بہتر ہوتا کہ کچھ عرصے کے لئے تمام تر ترقیاتی فنڈز، صوبائی اور وفاقی حکومت کے وزراء کی تنخواہیں اور مراعات روک لی جائیں یہی نہیں بلکہ فوج اور عدلیہ کو بھی اس نازک موقع پر ہمیشہ کی طرح معیشت کی بحالی تک مراعات لینے سے رضاکارانہ طور پر انکار کردینا چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان جو سادگی اپنانے کی ہر وقت تلقین کرتے رہتے ہیں کیا تمام سرکاری دفاتر میں اے سی بند کرنے اور پٹرول سمیت دیگر سرکاری افسران کو مراعات ایک مخصوص وقت کے لئے روکنے کا اگر بل نہیں تو کم از کم آرڈیننس ہی جاری کروادیں تاکہ عوام کو کسی طور یہ یقین ہوسکے کہ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں سنجیدہ ہے کیونکہ اب زبانی جمع خرچ کا وقت گزرچکا ہے۔ حکومت کو عوام سے وابستگی کے لئے عملی طور پر میدان میں آنا ہوگا کیونکہ اب حکومت اپوزیشن اور معیشت کی تباہی سابقہ حکومتوں کا کارنامہ قرار دینے کا چورن مزید نہیں بیچ سکتی اس لئے ضروری ہے کہ حکومت عوامی رابطہ مہم شروع کرنے سے قبل اپنے کارناموں کی ایک فہرست بھی ضرورمرتب کرنے کی زحمت کرے تو سمجھ میں آجائے گا کہ مہنگائی کے عفریت نے اس کی تمام تر کارکردگی پر جھاڑو پھیردیا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ اس حقیقت کو جانے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح سے کوششیں تیزی کے ساتھ جاری ہیں تاکہ آئندہ اسے تختہ مشق بنانے کا جواز یہ کہہ کر گھڑا جاسکے کہ پاکستان ایٹمی اثاثوں کی چونکہ حفاظت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس لئے اس کی حفاظت غیرملکی طاقتیں کریں گی جس کےبعد پاکستان پر چڑھائی کرنا ملک دشمن طاقتوں کیلئے کوئی مشکل کام نہیں رہے گا اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر اپوزیشن سمیت دیگر تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر ے اور معیشت کو سنبھالا دینے کے حوالے سے جامع لائحہ عمل تیار کرے۔ یہ وقت ذاتی اختلافات کا نہیں بلکہ قومی مفاد میں بات کرنے کا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author