اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حضرت سلیمان ؑ۔ ملکہ سبا اور رود کوہی نظام||گلزار احمد

خیر رودکوہی نظام کا سہرا ملکہ سبا کو جاتا ہے تو پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت سلیمان کی ہمارے پہاڑ کی سیر سمجھ آتی ہے کیونکہ ملکہ بلقیس تو ایسے وادیوں کی دلدادہ تھی جہاں کوہ کی رودیں ہوں اور دامان میں قدرتی ایسا ہو رہا تھا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔
بلوچستان سے ہمارے ایک دوست کریم نواز صاحب بڑے محقق اور دانشور انسان ہیں۔ انہوں نے رود کوہی نظام آبپاشی پر بین الاقوامی رائٹرز کے ساتھ ملکر تحقیق کی اور کتابیں لکھیں۔ایک کتاب کا ریفرنس میں نے آخر میں دیا ہے اس کے کو آتھر ہیں۔ مجھ سے جب کبھی بات ہو تو حیران کن تحقیق سے آگاہ کرتے ہیں۔
رودکوہی نظام سے متعلق پتہ چلا کہ یہ نظام تقریبا” سات سے آٹھ ھزار سال پرانا ہے مگر اس نظام کا پہلا ڈیم سب سے پہلے سبا قوم کی ملکہ جس کا نام بلقیس تھا کے زمانے سے شروع ہوا جو تین ھزار آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے۔ ملکہ سبا کا ذکر قران پاک میں حضرت سلیمان علیہ السلام کےساتھ آیا ہے۔
سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی، جس کا دارالحکومت مارب، موجودہ یمن کے دارالسّلطنت، صنعاء سے 55میل شمال مشرق میں واقع تھا۔وہ اس وقت کی امیر ترین قوم تھی ۔اس کی تجارت مشرقی افریقا، ہندوستان، مشرقِ بعید اور خود عرب میں ہوتی تھی۔
اس قوم نے مارب میں مٹی اور پتھر سے 18 میٹر اونچا اور 700 میٹر ڈیم بنایا جو تیس سے پچاس ھزار لوگوں کی زراعت کی ضرورت پورا کرتا تھا۔ وہ لوگ مکئ ۔جو ۔باجرہ اور کئ فصلیں کاشت کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مارب ڈیم آج تک پانی فراہم کر رہا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق روایت ہے ان کا نکاح ملکہ بلقیس سے ہوا تھا جس سے ان کا بیٹا Menilik پیدا ہوا جو ایتھوپیا کا پہلا بادشاہ بنا۔اور وہاں ایک قوم پھلی پھولی۔
خیر رودکوہی نظام کا سہرا ملکہ سبا کو جاتا ہے تو پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت سلیمان کی ہمارے پہاڑ کی سیر سمجھ آتی ہے کیونکہ ملکہ بلقیس تو ایسے وادیوں کی دلدادہ تھی جہاں کوہ کی رودیں ہوں اور دامان میں قدرتی ایسا ہو رہا تھا۔ روایت میں اس سفر میں ملکہ کا ذکر تو نہیں لیکن خیال یہ ہے کہ وہ ساتھ ہونگی۔حضرت سلیمان ؑ نے اپنا تخت اتار کر اس کوہ سلیمان سے جنوبی ایشیا کا جائزہ لیا ۔
اور اس وقت شاید اس علاقے پر گہرے بادل ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا وہ نیچے نہیں اترے اور وہاں سے واپس چلے گیے۔ ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اس وقت اس پہاڑ کی چوٹی پر کچھ آبادی تھی اور کچھ لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کو دیکھا اور پہچانا ۔انہی لوگوں نے باقی لوگوں کو تخت سلیمان کے اترنے کی جگہ کا بتایا اور اس طرح یہ روایت سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ورنہ ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ تخت سلیمان یہاں اترا تھا۔
مارب یمن میں جو ملکہ سبا نے ڈیم بنایا تھا وہ کچھ ہمارے دامان کے رودکوہی زاموں جیسا تھا۔ لگتا یہ ہے کہ انڈیا میں جو مارب سے تاجر لوگ آتے جاتے تھے ان کے انٹرایکشن سے یہ ٹکنالوجی ٹرانسفر ہوئ۔ ہمارے دامان کے لوگوں نے اس نظام کومزید improve کیا ہو گا۔

%d bloggers like this: