گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاٶں کے راستے تو کچے تھے مگر قدم قدم پر خوشبوٶں کا بسیرا تھا۔ سَرینھ کے درخت پر پھولوں کی جو مست خوشبو تھی وہ مجھے پیرس کے پرفیوم میں نہ مل سکی۔ نیم اور دریگ کے درخت پر جب پھول کھلتے تو پورا گاٶں مہک اٹھتا ۔ راستوں پر رات کی رانی عجب رنگ دکھاتی اور دن کا راجہ تو گھر کے دروازے پر استقبال کرتا۔رات کی رانی سے متعلق مشھور تھا کہ اس کی مست خوشبو پر سانپ آ جاتا ہے خیر مجھے ایسا تجربہ نہیں ہوا۔۔ دیسی کیکر کے پیلے پھول ایک منفرد خوشبو رکھتے ہیں۔
میں خوش قسمت ہوں کہ تقریبا” ہر درخت کے پھولوں کی خوشبو سے محظوظ ہوتا رہا بلکہ چکھ بھی لی۔چکھ اس لیے کہ شھد کی مکھی جس پھول سے شھد اکٹھا کرتی اس کا flavor اس شھد میں آ جاتا ہے ۔گلاب والی شھد ۔بیری کے پھول والی ۔سرسوں کے پھول والی۔کیکر ۔پلائ وغیرہ کی شھد کے علیحدہ ذائقے ہیں۔ یہ سب ذائقے دراصل کئ بیماریوں کا علاج ہیں ۔
اب ہم سے وہ رستے گم ہو گیے وہ ہمارے دل کے اندر محفوظ ہیں ہمارے ارد گرد تو پتھر ہی پتھر ہیں ۔احمد فراز نے کہا تھا ؎
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے۔۔
قافلے گزرے ہیں پھر بھی نقشِ پا کوئی نہیں۔۔
خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں۔۔
کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فراز۔۔
یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ ۔ یا کوئی نہیں ۔
یہ بھی پڑھیے
”شیر دل رانی، مائی چھاگلی (وسیب یاترا :8)||سعید خاور
”چِڑیاں اُٹھو کوئی دھاں کرو“ (وسیب یاترا :7)||سعید خاور
” "دل تاں آہدے یار دی وَستی ڄُلوں”(وسیب یاترا :6)||سعید خاور