اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شہر اقتدار کے دریچوں پر مارچ کی دستک||وقار حیدر

اسلام آباد کے باسیوں نے خزاں کے رنگے تو دیکھے ہی ہیں مگر گذشتہ چند برسوں کے دوران ان رنگوں میں مزید کئی رنگوں کا اضافہ ہوا ہے اور وہ رنگ ہیں ہجوم کے، شور و غوغے کے، حکومت اور عوام کے درمیان تناؤ کے۔

وقار حیدر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد کے باسیوں نے خزاں کے رنگوں کو تو دیکھا ہی ہے مگر گذشتہ چند برسوں کے دوران ان رنگوں میں مزید کئی رنگوں کا اضافہ ہوا ہے اور وہ رنگ ہیں ہجوم کے، شور و غوغے کے، حکومت اور عوام کے درمیان تناؤ کے۔

چند برس قبل یہاں خزاں کے رنگوں کی بہار ہوا کرتی تھی، جس سے شہر کی ہر گلی بکھرے زرد پتوں سے لدی نظر آتی تھی۔

لیکن اب جیسے ہی گرمی کا زور ٹوٹتا ہے اور سرد موسم مارگلہ کی پہاڑیوں سے شہر کے وسط میں اُترنا شروع ہوتا ہے تو شہر کو قید کر دیا جاتا ہے۔

شہر کے داخلی راستوں پر کنٹینر پہرہ دار ہوتے ہیں اور خاردار تاریں تیکھی نظروں سے آپ کو خبردار کرتی نظر آتی ہیں کہ اس راستے پر جانا ممنوع ہے۔

خزاں کو قید کرنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے مکین کرتے ہیں،اقتدار کی رہداریوں میں کسے آنا ہے، کسے لانا ہے اور کسے جانا ہے یہ سب فیصلے یہیں ہوا کرتے ہیں۔

عام پاکستانیوں کو بھی ایسا ہی لگتا ہے، تاہم فیصلے تو فیصلے ہوتے ہیں وہ کہیں بھی ہوں: بقول پیر نصیر الدین وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی۔

گذشتہ چند برسوں سے پاکستان کے دل یعنی لاہور جہاں داتا صاحب دفن ہیں وہاں سے ایک تنظیم حرمت رسول کی خاطر اکٹھی ہوتی ہے، چند مطالبات حکومت وقت کے سامنے رکھتی ہے اور انکار پر مارچ اور دھرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

وہ دھمکی اس قدر سخت ہوتی ہے کہ سب سے پہلے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم کو بند کر دیا جاتا ہے، پھر اردگرد کی گلیوں کو سیل کیا جاتا ہے اور پھر عوامی رابطوں کو ماند کرنے کے لیے سگنلز کو جام کیا جاتا ہے۔

اس ماہ اکتوبر میں بھی پھر اسی روایت کو دھرایا گیا ہے۔ مذہب کی تلوار اُٹھائے، رسول اللہ کی ڈھال پہنے، عشق رسول کا بھالا اُٹھائے یہ عاشق، یہ پیروکار، یہ پروانے اپنا تن، من اور دھن وارنے سڑکوں پر نکلے ہیں۔

مگر یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ اپنے مطالبات کے حق میں شہر اقتدار کی جانب پیش قدمی کی جائے یہ تو  معمول بنتی جا رہی ہیں۔

ایسا سماں 1980 میں پہلی بار دیکھا گیا تھا، جب چار اور پانچ جولائی کو ڈی چوک کی جانب پہلی بار فقہ جعفریہ نے اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیا الحق کے زکوۃ و عشرہ قانون کے خلاف مارچ کیا۔

فوجی حکمراں کے خلاف اس للکار کی قیادت مفتی جعفر حسین کر رہے تھے۔ عوام کے ایک بڑے ہجوم نے اپنے مطالبات کے حق میں سیکرٹریٹ بلڈنگ پر قبضہ کیا اور اپنے مطالبات منوا لیے۔

پھر 1989 مرحوم بےنظیر بھٹو کے پہلے دور میں اپوزیشن جماعتوں نے 17 اگست کو مارچ کیا جس کی قیادت برطرف وزیراعظم نواز شریف کر رہے تھے۔

پہلے تو حکومت نے اسلام آباد کو سیل کیا لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے ضیا الحق کی پہلی برسی پر آنے والوں کو اجازت دے دی اور احتجاج ختم ہوگیا۔

پھر 16 نومبر، 1992 اور 16 جولائی، 1993 کو اپوزیشن بینظیر کی قیادت میں پارلیمنٹ کی جانب بڑھی اور نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔

آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان  کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو وکلا کی تحریک نے بھی مارچ میں اپنا حصہ ڈالا اور 2007 میں شروع کی گئی مشہور وکلا تحریک نے فوجی آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں مارچ کا آغاز کیا۔

یہ پہلا مارچ تھا جو مارچ میں ہوا۔ اس احتجاج کی پشت پناہی نواز شریف کر رہے تھے۔ مارچ کے دوران ہی سابق صدر مشرف نے نومبر میں ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔

2013 اور 2014 کے درمیان 30 احتجاجی دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے بلوچستان سے پارلیمنٹ پہنچے، ان کا مطالبہ تھا کہ لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے لیکن حکومتی پریشر کو قبول کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

14 اگست 2017 کو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے مشترکہ طور پر مارچ کا آغاز کیا۔ عمران خان اور طاہر الحق قادری اس مارچ کے روح رواں تھے۔ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف 126 روز کا مشہور دھرنا ڈی چوک کے عین بیچوں بیچ جاری رہا۔

مذہبی اور پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے بھی چھ نومبر، 2017 میں پہلا مارچ لاہور سے شروع کیا اور راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد کو اپنا مسکن قرار دیا۔

2017 میں تحریک لبیک نے جب فیض آباد پر دھرنا دیا تو اس وقت شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم تھے اور موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُنھیں مشورہ دیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔

گذشتہ برس نومبر 2020 میں پھر کالعدم ٹی ایل پی ایک بار پھر سیاسی افق پر نمودار ہوئی اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کیا، حکومت سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانس سے تعلقات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

 چند روز فیض آباد محصور رہا لیکن پھر مذاکرات کے بعد مذہبی جماعت کے کارکنان واپس چلے گئے۔

حالیہ احتجاج اور مارچ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ حکومت نے ہمارے ساتھ کیے گئے مذاکرات کے نکات پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اس بار معاملہ کس طرف جاتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مرد، ٹھرک، صنف نازک اور معاشرہ ۔۔۔وقار حیدر

ٹک ٹاک ۔۔۔ لیکڈ ویڈیوز کا نیا پلیٹ فارم ۔۔۔وقار حیدر

دیکھ کر ڈیلیٹ کر دینا اب کوئی نہیں کہتا۔۔۔وقار حیدر

وقار حیدر کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: