اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مالش اور مالشیے۔۔۔ڈیرہ کی ثقافت کے رنگ||گلزار احمد

بہرحال، انسان روزمرہ معمولات زندگی نمٹانے کے بعد تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ جسم کو توانا رکھنے اور تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مالش اور مالشیے ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ ان لوگوں کے پاس ایک چھوٹا سا مختلف تیلوں کی شیشیاں رکھنے والا سٹینڈ ہوتا ہے۔ جس کو ” گھنڑ” کہا جاتا ہے۔ جس میں مختلف قسم کے تیلوں کی شیشیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مالشی گلیوں میں گھومتے ہوئے گھنٹر کو خاص طریقے سے کھنکھناتے ہیں جس سے آواز پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ "مالیش مالیش” یا پھر "تیل لوا جوان ” کی صدا لگاتے نظر آتے ہیں۔
ماضی میں ان مالشیوں کے مندرجہ زیل ٹھکانے زیادہ مشہور تھے جہاں ہر وقت آپ کو مالشی با آسانی مل جاتے تھے، پلازہ اور ٹیٹلر سینما کے آس پا س، لیاقت پارک والا تانگہ سٹینڈ، گھاس منڈی موڑ، جمعہ کے روز دریا کنارے گھڑے بھن پر، پولو گراؤنڈ، محلوں کی مختلف چوکوں پر۔۔ لیکن اب ان جگہوں پر اکا دکا مالشیوں کے علاوہ جہاں حقنواز پارک سیاسی، سماجی جلسوں کے لیئے مشہور ہے وہاں اب ان کی بھی شام کے بعد مستقل سکونت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور گلی محلوں میں بھی رات کے وقت مالشی پیدل گھوم کر لوگوں کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔تجربہ کار اور پرانے مالشیوں کے مستقل گاہک انھیں فون کرکے بلواتے ہیں۔ ماہر مالشی کے پاس درجنوں خصوصی تکنیک ہوتی ہیں جس سے وہ جسم کے مختلف اعضا اور حصوں میں موجود درد کو مالش سے دور کرتے ہیں۔ سرسوں اور کڑوے تیل کے علاوہ بعض عادی افراد کھوپرے کے تیل اور دھنیے کے تیل کی خصوصی مالش کراتے ہیں۔
ماضی میں "مومی مالشی، ڈتو کھیارہ، وسایا گنجو آلا، حسہ تیلی، سرور جٹا، رانجھو، مکھنڑاں نواب، اسلم ڈزی مار، کوڑا خان وغیرہ نامی گرامی اور اتنے تجربہ کار مالشی تھے کہ ڈاکٹر بھی کمر اور مہروں کے درد کے علاوہ جوڑوں کے درد، عرق النساء، رگوں کا چڑھ جانے، ہڈیوں کی ٹوٹنے اور کمر میں چوک پڑنے والے مریضوں کو انہی نامی گرامی مالشیوں سے مالش کرانے کا مشورہ دیتے تھے۔ تاہم اب بے روز گاری کے باعث مختلف دیہاتوں کے نوجوان اور دیہاڑی دار مزدور بھوک افلاس سے تنگ آکر بھی مالشی کا کا م کر رہے ہیں ایسے افراد جسم پر اپنی جان لگا کر مالش تو کر لیتے ہیں مگر ان افراد کو جسم میں موجود رگوں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ مالش کا کام انتہائی محنت طلب اور مشکل ہے اس کام کے لیے کئی کئی سال استاد سے تربیت لینی پڑتی ہے۔ جس میں مالشی کو اس بات کا ابتدائی علم دیا جاتا ہے کہ وہ جسم میں موجود ہڈیوں اور جسم کے مختلف حصوں کے بارے میں جانتا ہو تاکہ جسم کی مختلف بیماریوں میں وہ مالش کرتے ہوئے ان رگوں کو گرمائش پیدا کر کے تیل جذب کر واسکے۔
رات کے وقت بجلی کے طویل تعطل اور لوڈشیڈنگ سے شہریوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل کر سڑکوں پر ہوا کھانے آتی ہے، گلی محلوں میں شہری دکانوں کے باہر پھٹوں یا گرین بیلٹس میں بیٹھتے ہیں یہی عوامی مقامات اور رش مالشیوں کی روزی روٹی کا سبب بن جاتے ہیں اکثر شہری بجلی کے انتظار کے موقع کو غنیمت جان مالش کراکر جسمانی تھکاوٹ دور کرتے ہیں۔
بہرحال، انسان روزمرہ معمولات زندگی نمٹانے کے بعد تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ جسم کو توانا رکھنے اور تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔ تاہم کبھی کبھی جسمانی تھکاوٹ اور سستی دور کرنے کے علاوہ جسم کو توانا رکھنے کے لیے کسی اناڑی نہیں بلکہ ماہر مالشی سے مالش بھی کرانی چاہیے اور ساتھ محمد رفیع کی آواز میں 1950 کی فلم "پیاسا” کے لیے ساحر لدھیانوی یہ مشہور گانا جوجانی واکر (بطور مالشی) فلمایا گیا تھا بھی ضرور سننا چاہیے "سر تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے۔۔سوجا پیارے تیل لگا کر۔۔ کاہے گھبرائے۔۔ ہو، کاہے گھبرائے”۔۔

%d bloggers like this: