اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سانحہ کارساز|| زاہد حسین

۔ ان میں سے بیشتر نے اپنے موبائیل فونز کی ٹارچ اون کر لی تھیں۔ بی بی شہید اس اندھیرے میں بھی ٹرک پر موجود تھیں اور جلوس کی قیادت کرتی رہیں۔ مگر کچھ پارٹی رہنماؤں نے بی بی کو کہا کہ آپ ٹرک کے محفوظ حصے میں چلی جائیں اور جب اسٹریٹ لائیٹس روشن ہو جائیں تو واپس ٹرک پر آ جائیں۔ چنانچہ بی بی ٹرک کے محفوظ حصے میں چلی گئیں۔

زاہد حسین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

18۔اکتوبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو کی آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی کی کوریج میری سربراہی میں مجھ سمیت رائیٹرز نیوز ایجنسی کے پانچ فوٹوگرافرز کی ایک ٹیم نے کی ۔جس میں سے ایک بی بی شہید کے ساتھ سفر کرتا ہوا آیا تھا۔اس دن ہمارے پلان کے مطابق میں بی بی کے ٹرک سے ذرا آگے میڈیا والوں کے لئے محتص ٹرک پر سوار تھا اور بی بی کی ٹرک سے لوگوں کو ہاتھ ہلانے کی پانچ تصاویر اسی بس کی چھت سے سیٹیلائیٹ فون کے ذریعے بھیج چکا تھا اور ا ب میں بی بی کی کچھ مختلف تصویریں بنا کر بھیجنا چاہ رہا تھا ۔چنانچہ میں نے بی بی کو کچھ آوازیں دیں اور جب وہ ہماری بس کی طرف رخ موڑتیں تو میں ہاتھ ہلا کر انہیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتا مگر کارکنوں کے نعروں کی آوازوں اور دوسرے شور کے باعث ان کو متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔اس دوران بی بی کےپیچھے کھڑے راشد ربانی نے مجھے دیکھ لیا اور بی بی کو بتایا کہ زاہد آپ کو آوازیں دے رہا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہا ہے کہ بی بی وکٹری کا نشان بنائیں اس دوران ساتھ کھڑے یوسف رضا گیلانی نے بھی مجھے دیکھ لیا اور وہ بھی بی بی کو بتانے لگے مگر بی بی مجھے لوکیٹ نہیں کر پا رہی تھیں مگر تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا جبکہ میں اپنے ایک ہاتھ سے وکٹری کا اشارہ کر رہا تھا چنانچہ انہوں نے فوراً میرے لیے وکٹری کا نشان بنانا شروع کیا اور میں نے دھڑا دھڑ ان کی وکٹری والی کافی تصاویر بنا ڈالیں۔ اور دنیا بھر میں رائٹرز کے کلائنٹس کو بی بی کی تازہ تصاویر بھیجنے کی کوشش کرنے لگا ۔ یہ تصویر اسی موقع کی ہے جب راشد اور گیلانی صاحبان بی بی کو میرے بارے میں بتا رہے تھے۔بعد ازاں بی بی شہید کی قیادت میں جلوس اسٹارگیٹ سے شارعِ فیصل پر آیا اور کارساز کی جانب چل پڑا ۔اس اثناء میں رات شروع ہو چکی تھی اور بی بی کا استقبالی جلوس جوش و جذبے سے سرشار رواں دواں تھا۔ کارساز سے کوئی دو فرلانگ پہلے اچانک تمام اسٹریٹ لائیٹس بند ہو گئیں اور مکمل اندھیرا ہو گیا۔ مگر جلوس کے شرکاء اسی جذبے کے ساتھ چلتے رہے ۔ ان میں سے بیشتر نے اپنے موبائیل فونز کی ٹارچ اون کر لی تھیں۔ بی بی شہید اس اندھیرے میں بھی ٹرک پر موجود تھیں اور جلوس کی قیادت کرتی رہیں۔ مگر کچھ پارٹی رہنماؤں نے بی بی کو کہا کہ آپ ٹرک کے محفوظ حصے میں چلی جائیں اور جب اسٹریٹ لائیٹس روشن ہو جائیں تو واپس ٹرک پر آ جائیں۔ چنانچہ بی بی ٹرک کے محفوظ حصے میں چلی گئیں۔ اس دوراں جلوس اپنے راستے پر رواں رہا۔ مگر کچھ دیر بعد اندھیرے میں دو دھماکے ہوئے ، جو بعد میں معلوم ہوا کہ خود کُش بمبار دھماکے تھے،
May be an image of outdoors and text that says 'LONG LIVE BINTTO VISEAN DIESE- BORATEDE ©REUTERS A view of the site after a suicide bomb attack on a welcome rally of Benazir Bhutto in Karachi which killed 180 supporters of her PPP and wounded about 500 October 18, 2007. REUTERS Photo'
جس کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی پھیلی۔ سینکڑوں کارکنوں اور ریلی کے شرکاء کے شدید زخمی ہونے کے باعث چیخوں، شور و غل اور آہ و ذاریوں کی آوازیں اندھیرے میں گونجنے لگیں۔وہاں ایک قیامتِ صغرا کا منظر تھا۔میں اس موقع کی تصاویر شیئر نہیں کر سکتا کیونکہ فیس بک پر خون اور لاشوں کی تصاویر ڈالنے پر میرا فیس بک اکاؤنٹ بند کیا جا سکتا ہے۔ اس دوراں دھماکے کے بچ جانے والے ساتھیوں نے زخمیوں کو لے کر مختلف ذرائع سے اسپتال لے جانے کا سلسہ شروع کیا آخر ایدھی اور دوسری تنطیموں کی ایمبولینس پہنچنا شروع ہو گئیں اور انہوں نے جلوس کے بچ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تیزی سے شدید زخمیوں کو اسپتالوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ۔اس دوراں بی بی کی بلٹ پروف گاڑی ٹرک کے ساتھ لگا کر بی بی کو اس میں منتقل کیا گیا اور بی بی کو بلاول ہاؤس روانہ کر دیا گیا ۔ اس دھماکے میں 177 لوگ شہید ہوئے اور 630 کے قریب زخمی تھے۔اللہ تعالیٰ شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے آمین
دیر آید درست آید

زاہد حسین کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: