مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وی سی آر اور گردشِ ایام||گلزار احمد

وی سی آر محض ایک ایجاد نہیں بلکہ ایک عہد ساز روایت کا نام تھا۔ اس کا نام آتے ہی میرے ذہن میں ایک تصویر ابھرتی ہے۔ کسی پردہ دار عورت کی مانند چادروں میں لپٹا لپٹایا کئی پردوں میں ملفوف سیاہ ڈبہ

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ دنوں آستانہ عمرانیہ پر وجاہت عمرانی کے ساتھ ادب و ثقافت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ سید ارشاد شاہ صاحب کی خود نوشت ” گردشِ ایام ” پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔۔ عمرانی صاحب کے بقول کہ سید ارشاد شاہ صاحب نے اپنی آب بیتی میں اپنی ہر قسم کی محفلوں اور سینما گیری کا زکر کیا ۔ لیکن کہیں بھی وی سی آر والی محفلوں کا زکر نہیں کیا۔ حالانکہ اس دور میں دوستوں کے ساتھ وی سی آر کی محفلیں خوب جمتی تھیں۔ وی سی آر کی بات کرکے عمرانی صاحب نے مجھے بھی ماضی میں پہنچا دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر زمانے کا اپنا ایک نشہ اور رومانس ہوتا ہے اور رومانس چونکہ جوانی سے جڑا ہوتا ہے اسی لئے ہمیں رہ رہ کر اپنی جوانی کا زمانہ یاد آتا ہے اور اس کے ساتھ وابستہ ہر چیز ہمیں انمول لگتی ہے۔ اب یو ایس بی، اسمارٹ فون، یو ٹیوب اور نیٹ فیلکس کے دور کے اِن بچوں کو کیا پتہ کہ کسی زمانے میں یہ کیا شاہکارہوتا تھا۔ جسے ویڈیو کیسٹ ریکارڈر یعنی وی سی آر شریف میں سمو کر جوانی میں ہماری جیسی عمر کے کتنے نوجوانوں نے دلیپ کمار، شمی کپور، دھرمیندر، رشی کپور، ریکھا، سائرہ بانو، مدھو بالااور زینت امان کی ہوشربا حشرسامانیاں دیکھیں۔ یقین ہے کہ اگر آج کسی بچے کے ہاتھ وی سی آر کی کیسٹ آ جائے تو وہ اس کا بالکل ایسے ہی تجزیہ یا پوسٹ مارٹم کرے گا، جیسے آثار قدیمہ سے کسی کو قدیم نوادارت مل جائیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ کب، کیسے اور کس کے استعمال میں ہوگی۔
ایک زمانہ تھا جب گلی محلوں میں جا بجا ویڈیو کیسٹس کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ جس نوجوان کو نوکری نہ ملتی یا اس کی دبئی جانے کی کوشش بارآور نہ ہوتی وہ ویڈیو کیسٹس کی دکا ن کھول لیتا اور سوچتا کہ اب یہیں اس کی ”دبئی” لگ جائے گی۔انہی دکانوں سے وی سی آر بھی کرائے پر مل جایا کرتا تھا۔ٹی وی بمع وی سی آر اور چار پانچ من پسند فلموں کا مکمل پیکج فقط80یا سو روپے میں مل جاتا۔یار لوگ رات دس بجے سے صبح دس بجے تک وہ چار پانچ فلمیں یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے جیسے میٹرک کا پرچہ انہی فلموں میں سے بننا ہو۔
وی سی آر محض ایک ایجاد نہیں بلکہ ایک عہد ساز روایت کا نام تھا۔ اس کا نام آتے ہی میرے ذہن میں ایک تصویر ابھرتی ہے۔ کسی پردہ دار عورت کی مانند چادروں میں لپٹا لپٹایا کئی پردوں میں ملفوف سیاہ ڈبہ۔اس لیے جب ہم دوست شہر سے وی سی آر کرائے پر لے کر آتے تو اسے چادروں میں لپیٹ کر لایا کرتے تھے، لیکن پھر بھی کہیں کسی کونے سے کوئی تار نکل کر بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیتی۔ وی سی آر لاتے ہوئے مومنوں کی کم نگاہی اور اپنی بے عزتی کے ڈر سے ہم اپنے چہروں پر کپڑے یا صافے کا بکل مار لیتے تھے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ رکشے کا کرایہ ہضم کرنے کے لیے وی سی آر اور کیسٹیں کپڑے میں باندھ کر سائیکل کے پیچھے یا پھر بغل میں دبائے مطلوبہ مقام تک آتے۔
فیملی کے علاوہ جب ہم دوست پروگرام بناتے تو سب سے پہلے کوئی خالی گھر یا بیٹھک ڈھونڈی جاتی جہاں مدھم بتیوں کی روشنی میں وی سی آر کو ٹی وی سے منسلک کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا۔ ٹی وی کا مناسب چینل ٹیون کرنے میں بعض اوقات دیر لگ جاتی تو سبھی بیقرار ہونے لگتے اور اگر کوئی غلط بٹن دب جاتا تو سارا معاملہ ہی ٹھپ ہو جایا کرتا تھا۔ہمارے جیسے فلموں کے رسیا ایسے بھی تھے جو فلم کے اختتام تک کیسٹ کو چلنے دیتے کہ ممکن ہے کہ کوئی اور فلم نکل آئے۔ دوستوں کی محفل میں تو ریمورٹ کنٹرول کو شودر سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا تھا۔ لیکن جب فیملی پروگرام ہوتا تو گھر کے بڑوں کے ہاتھ میں چھوٹا سا ریموٹ ہوتا جو اُس وقت زیادہ کام آتا جب ہیرو یا ہیروئن ضبط کے بندھن توڑ کر اخلاق کی حدوں کو پارکرنے کے لیے پر تول رہے ہوتے تو بزرگوں کا بھی ٹھنڈا خون جوش مارتا، جو ہم جیسوں کو یہ پتہ نہیں لگنے دیتے کہ اگر ہیرو نے ہیروئن کا ہاتھ پکڑا تھا تو اس کے بعد اس کی حد کہاں جا کر ختم ہوئی تھی۔ ویسے یہاں بتا دوں کہ پران، امجد خان، رنجیت، پریم چوپڑہ اور امریش پوری اگر کسی تنہا ہیروئن کو سنسنان جگہ پر کسی راہزن کی طرح آگھیرتے تو غیب کا علم جاننے والے یہ گھر کے بزرگ ان کے ارادوں کو بھانپ جاتے جبھی جھٹ پٹ فاسٹ فاروڈ کرکے اس ساری واردات سے جان چھڑا لیتے۔ اُس وقت ننھی منی سی لیڈ "اتحاد بین المسلمین” کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ جواہل وی سی آر ہوتے وہ اس لیڈ کے ذریعے آس پڑوس کو بھارتی ثقافتی یلغار سے محروم نہ رکھتے۔ مرد و خواتین کے فلمیں دیکھنے کے بعد ایک ہفتے تک فلموں کی سٹوری، ہیروئن کے میک اپ اور گانوں پر تبصرے رواں رہتے۔ ساری رات جاگنے کے خیال سے بچے،بڑے دوپہر کو ہی نیند کا کوٹا مکمل کر لیتے تاکہ رات کو فلم بینی کے دوران نیند کے جھٹکوں سے مناظر رہ نہ جائیں۔
کبھی کبھی فلم دیکھتے ہوئے سکرین پر بڑھاپے کی طرح "جھریاں ” آجاتیں تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وی سی آر کہہ رہا ہے کہ ” آپ نے گھبرانا نہیں ہے”۔جبھی پرفیوم، نیا نوٹ یا پھر سوتی کپڑا نکال کر ہیڈ صاحب کا دماغ صاف کیا جاتا "ریل” ٹوٹنے کی صورت میں کسی ماہر کاری گر کی خدمات حاصل کی جاتیں جو کبھی نیل پالش یا پھر ٹیپ سے ایک سے دوسرے سرے کو جوڑ کر فاتحانہ انداز میں مسکراتا۔ دبئی یا سعودی عرب سے آنے والوں سے کھجوریں یا دیگر تبرکات لانے کے بجائے دوستوں کی سوئی وی سی آر یا پھر نئی فلموں کے مطالبے پر اٹکی رہتی۔
گذشتہ دو دہائیوں میں ہمارے نوسٹیلجیا سے جڑی بہت سی خوبصورت چیزیں قصہ پارینہ بنیں۔ وی سی آر ان میں سے سر فہرست ہے۔ نہ اب وہ وی سی آر کرائے پر دینے والے کھوکھے گلی گلی کے نکڑ پر نظر آتے ہیں اور نہ ہی اس کی کیسٹیں ڈھونڈے سے ملتی ہیں۔ ہاں ایک اور بات کہ پوری رات مسلسل اور لگاتار فلمیں دیکھی جاتی تھیں کیونکہ اس وقت لوڈشیڈنگ کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔

%d bloggers like this: