مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چین‘ یوم جمہوریہ: بے مثل ترقی کا سفر||شبیر حسین امام

جون 2021 میں مرتب کردہ عالمی اعدادوشمار جو کہ عالمی بینک کے مرتب کردہ ہیں کے مطابق سال 2021-22 کے دوران پاکستان میں انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد 39.3 فیصد ہے جو سال 2022 میں بھی کم و بیش یہی رہے گی

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

چین کی آزادی اور ترقی کا سفر جس ایک فیصلے پر پختگی و سختی سے عمل کا نتیجہ ہے۔ اس میں ’روائتی طرز ِحکمرانی‘ کو ’عوامی جمہوریہ‘ سے بدلا گیا جس کے بعد چین کے 72 سالہ سفر (یکم اکتوبر 1949 سے یکم اکتوبر 2021) میں ’عوامی جمہوریہ چین‘ نے ایک سے بڑھ کر ایک سنگ ِمیل عبور کئے اور ان کارہائے نمایاں میں سب سے اہم ”انتہائی غربت میں غیرمعمولی کمی“ ہے جبکہ حاصل مطالعہ چین کی قومی ترجیحاتی حکمت ِعملی کے 3 پہلو ہیں۔ 1: ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط بڑھانے کے نئے امکانات کی تلاش اور بہتر سے بہتر کی جستجو (جہد ِمسلسل)۔ اِن تینوں شعبوں اور امور میں قومی فیصلہ ساز کس حد تک کامیاب و کامران رہے اِس بات کا اندازہ چین کی ترقی کے اقتصادی اعشارئیوں سے متعلق اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ تعجب خیز ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ 2019سے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی معیشت کورونا وبا کے دباؤ میں ہے لیکن چین کی سالانہ شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہے جو سالانہ 100کھرب یوآن تک جا پہنچی ہے اور چین میں فی کس اوسط آمدنی 10 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ ذہن نشین رہے چین کی کرنسی یوآن کا پاکستانی روپے سے شرح تبادلہ 31 اگست2021کے روز 25 روپے پچاس پیسے جبکہ 30 ستمبر 2021کے روز 26 روپے 25 پیسے رہا یعنی پاکستانی روپے کے مقابلے چین کی کرنسی کی قدر میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔

چین کے موجودہ صدر ڑی جن پنگ (Xi Jinping) نومبر 2012 سے حکمراں جماعت چائنیز کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور صدارتی عہدے فائز ہیں اور اِس عرصے میں پہلے دن انہوں نے 10 کروڑ (100ملین) لوگوں کو خط ِغربت سے بلند کرنے کے جس عزم کا اظہار (قوم سے وعدے کی صورت) کیا تھا ا±سے عملاً پورا کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ اِنسانی تاریخ میں اِس جیسی ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ جہاں کسی قوم کے 98 فیصد غریبوں کی مالی حالت تبدیل ہو گئی ہو! ذہن نشین رہے کہ ’خط ِغربت‘ کسی ملک میں ایسے افراد کی تعداد کا تعین کرتا ہے جن کی یومیہ آمدنی 2.30 (ڈھائی) امریکی ڈالر یومیہ سے کم ہو۔ چین میں غربت اِس کے شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ تھی۔ چین نے پہلا کام یہ کیا کہ خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے عالمی پیمانے (ڈھائی ڈالر یومیہ آمدنی) کو مزید کم کر کے 1.90 ڈالر یومیہ آمدنی کے حساب سے آبادی کی تعداد معلوم کی اور دوسری خاص بات یہ رہی کہ غریبوں کو نقد مالی اِمداد دے کر مصنوعی طریقے سے خط ِغربت سے بلند نہیں کیا گیا بلکہ روزگار کی فراہمی اور ہنرمندی کے ذریعے اِنہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا یعنی روزگار کی فراہمی سے معیشت و معاشرت کو مستحکم کیا۔ ذہن نشین رہے کہ ”یومیہ ایک اعشاریہ نوے امریکی ڈالر“ کا پیمانہ عالمی بینک کا وضع کردہ ہے جس کی پاکستانی روپے میں قدر قریب 327 روپے بنتی ہے یعنی ہر وہ شخص جس کی یومیہ آمدنی تین سو ستائیس روپے یا اِس سے کم ہے وہ ’خط ِغربت‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ 1990میں 75 کروڑ (750 ملین) چینی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جبکہ 2012 میں یہ تعداد کم ہو کر 9 کروڑ (90ملین) ہو گئی اور 2016 میں مزید کم ہو کر 72لاکھ (7.2 ملین) رہ گئی جو چین کی کل آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے یعنی چین کی کل آبادی کا صرف 0.5 فیصد خط غربت سے نیچے ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں 30 سال پہلے جو 74 کروڑ 50 لاکھ انتہائی غریب لوگوں رہتے تھے‘ ان میں سے آدھ فیصد ہی انتہائی غریب رہ گئے ہیں۔ چین نے انتہائی غربت کم نہیں کی بلکہ اِس کا عملاً اِنسداد کیا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بالکل اسی چین کے طوطے کی طرح سبق سیکھنا چاہئے جو ایک فرضی کہانی کا کردار ہے کہ پنجرے میں بند چین کے ایک طوطے کا پیغام سن کر کس طرح اس کے ہم جنس نے قید سے رہائی حاصل کی اور اگر پاکستان کے قومی فیصلہ ساز متوجہ ہوں اور چین کی دوستی پر فخر اور ناز کرتے ہوئے صرف یہ کہنے پر اکتفا نہ کریں کہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہرائی‘ ہمالیہ پہاڑی سلسلے سے زیادہ بلند و مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو یقینا ایسا ہی ہوگا لیکن اصل چیز چین سے تعمیروترقی اور غربت کو شکست دینے کے اس عمل کے مطالعے اور تجربے سے فائدہ اٹھانا ہے جس نے چین کی حکمرانی کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کیا ہے اور آج دنیا کی کوئی ایسی معیشت‘ کوئی ایسی ترقی اور کوئی ایسی سیاسی و سماجی حکمت ِعملی (لائحہ عمل) نہیں جس پر چین کے اثرات‘ چھاپ یا تحقیق و ترقی کا عمل دخل نہ ہو۔

جون 2021 میں مرتب کردہ عالمی اعدادوشمار جو کہ عالمی بینک کے مرتب کردہ ہیں کے مطابق سال 2021-22 کے دوران پاکستان میں انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد 39.3 فیصد ہے جو سال 2022 میں بھی کم و بیش یہی رہے گی جبکہ موجودہ حکومت کی معاشی اصلاحات کا تسلسل رہا تو عالمی بینک کے مطابق سال 2022-23 کے دوران انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد کم ہو کر 37.9فیصد ہو جائے گی۔ تصور ممکن نہیں کہ ہر 100 پاکستانیوں میں سے 37 افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ان کے 3 وقت کی کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم و علاج معالجے سے محروم ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات نہیں رکھتے۔ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں غربت کے اعدادوشمار کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ ہر سال ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ فیصد غریبوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے زرعی شعبے اور ان قدرتی وسائل کو ترقی دی‘ جس روائتی انداز کے سبب منافع بخش نہیں رہی تھی۔ یہی آج کے پاکستان کا بھی مسئلہ ہے کہ ہم ’زرعی ملک‘ تو ہیں لیکن زراعت اور زرعی معیشت و معاشرت وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ترقیاتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ دعوت ِفکر ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی صداحترام قیادت اور باشعور عوام کو ’یوم ِجمہوریہ‘ کے موقع پر ڈھیروں ڈھیر مبارکبادیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چین کی ترقی کے 3 بنیادی پہلوؤں (ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط کے نئے امکانات کی جستجو و تلاش) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ چین نے علم و عمل کی بنیاد پر ترقی و ارتقا حاصل کیا ہے اس میں اپنی زبان اور تاریخ و ثقافت کو فراموش نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ چین کی حکمرانی اِس کی جغرافیائی سرحدوں میں محدود نہیں رہی بلکہ وہ دوستی کی علامت اور امن و ترقی کی عالمی شراکت دار بن چکا ہے۔ چین کی کامیابیوں میں پاکستان کے دیرینہ مسائل (بحرانوں) اور انسداد ِغربت کا راز (حل) پوشیدہ ہے لیکن کوئی ہے کہ جو غور کرے؟ ”میں چاہتا تھا کہ دنیا کو تیرے جیسا لگوں …. سو تیرے قول و عمل کی مثال ہونے لگا (یاور عظیم)۔“

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: