مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنم بھومی …. ترک تعلق بھی اِک تعلق ہے||شبیر حسین امام

پشاور کے اُفق پر فلمی ستاروں کی چمک دمک کو تہذیبی و ثقافتی ورثے کے طور پر پیش کرنے کی منفرد کوشش میں صوبائی محکمہ آثار قدیمہ پورے انہماک سے حصہ لے رہا ہے۔

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پشاور کے اُفق پر فلمی ستاروں کی چمک دمک کو تہذیبی و ثقافتی ورثے کے طور پر پیش کرنے کی منفرد کوشش میں صوبائی محکمہ آثار قدیمہ پورے انہماک سے حصہ لے رہا ہے۔ خواہش ہے کہ اُردو (ہندی) فلموں کے نامور اداکاروں دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے آبائی گھروں کو محفوظ کیا جائے اُور اِس مقصد کے لئے تعمیروبحالی کے عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ کون جانتا تھا کہ محمد یوسف خان ولد لالہ غلام سرور خان (والدہ عائشہ بیگم) کا فلمی نام ’دلیپ کمار‘ ہوگا اُور یہ اُن کے اصل نام سے زیادہ مقبول ہو جائے گا۔ بہرحال دنیا دلیپ کمار کو جانتی ہے جن کی پیدائش 11 ستمبر 1911ءپشاور اُور وفات 7 جولائی 2021ءپشاور سے قریب 1700 کلومیٹر دور ممبئی میں ہوئی اُور وہیں کے مقامی قبرستان میں اُنہیں سپردخاک کر دیا گیا۔ 1930ءکی دہائی میں دلیپ کمار کے والدین نے بہتر کاروباری مواقعوں کی تلاش میں نقل مکانی کی تھی‘ جو برصغیر کی تقسیم کے بعد مستقل شکل اختیار کر گئی‘ جس کے بعد یہ اُور دیگر کئی خاندان واپس پشاور نہ آ سکے۔ دلیپ کمار کے نام سے شہرت پانے والے یوسف خان کو حکومت ِپاکستان نے فلمی خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین قومی (سول) اعزاز ’نشان ِامتیاز‘ (1998ئ) سے نوازا تھا اُور جولائی 2014ءاُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے آپ کے آبائی گھر کو ’قومی ورثہ (نینشل ہیئرٹیج مانومینٹ)‘ قرار دیا جس کے بعد ’آثار قدیمہ‘ کے مجریہ (اینٹیکوٹی ایکٹ 1997ئ) کی روشنی میں اُن کے گھر کا تذکرہ زبانی کلامی یا سرکاری دستاویزات میں بطور ’محفوظ یادگار (پروٹیکٹیڈ مانیومنٹ)‘ کے ہونے لگا۔

بھارت کی فلمی صنعت کے دوسرے نامور کرداروں ’کپور خاندان‘ کا آبائی تعلق بھی پشاور سے ہے اُور خیبرپختونخوا حکومت نے ’کپور حویلی‘ کو خرید کر ’ثقافتی عجائب گھر‘ میں تبدیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ دلیپ کمار نے اپنی آپ بیتی ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں لکھا تھا کہ ”ہم غیرمنقسم برصغیر میں رہتے تھے اُور تب (پشاور میں) ہندوو¿ں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی مسلمانوں کے اکثریتی آبادی والے علاقوں میں مل جل کر آباد ہوا کرتی تھی۔ مسلمان (اکثریت) اُور ہندو (اقلیت) ایک دوسرے سے گھل مل کر رہتے۔ ایک دوسرے سے بات چیت اُور راہ و رسم رکھتے اُور سر راہ ایک دوسرے سے بات چیت اُور تہنیتی کلمات کا تبادلہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے (گویا پشاور ایک ایسے گلدستے کی مانند تھا جس میں ہر رنگ و نسل اُور مذہب و عقیدے سے تعلق رکھنے والے پھول اپنی اپنی خوشبو پھیلاتے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پشاور ’پھولوں کا شہر‘ کہلایا تھا)۔“ دلیپ کمار نے لکھا کہ ”میرے والد کے کئی ہندو دوست تھے جن میں سے ایک ’بشیش ور ناتھ جی (Bashesh Warnath Ji)‘ بھی تھے۔ آپ کسی حکومتی دفتر میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ بشیس ناتھ اپنے بڑے جوانسال صاحبزادے کے ہمراہ کئی مرتبہ ہمارے گھر آئے‘ جن کی شخصیت و خوبصورتی (مردانہ جاہ و جلال) کو دیکھنے والے دم بخود رہ جاتے تھے۔ یہ خوبرو جوان پریتھوی راج (Rrithvi Raj) تھے‘ جو بعد میں ’راج کپور‘ کے والد ہوئے۔“ پنجاب کے ہندو قبیلے سے تعلق رکھنے والے ’کپور خاندان‘ کے کچھ لوگ پاکستان بننے کے بعد (1947ئ) میں بھارت منتقل ہوئے اُور اپنے پیچھے ایک تعمیراتی شاہکار بصورت ’کپور حویلی‘ چھوڑ گئے جو ’بشیش ناتھ جی‘ نے 1918ءسے 1922ءکے درمیان تعمیر کی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ دلیپ کمار کی طرح کپور خاندان نے بھی بھارت کی فلمی دنیا پر راج کیا۔ راج کپور خاندان کے فلمی سفر کا آغاز 1928ءمیں جبکہ دلیپ کمار کی بطور ہیرو پہلی فلم (جوار بھٹا) 1944ءمیں نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی۔

دلیپ کمار کی آپ بیتی کا مطالعہ ’اہل پشاور‘ کو ضرور کرنا چاہئے‘ جس سے اُنہیں پشاور کے ماضی ِقریب میں رونما ہونے والی کئی خوبیوں کا علم ہوگا جیسا کہ بول چال میں ادب و احترام کا کس قدر اہتمام کیا جاتا تھا۔ دلیپ کمار اُور اِن کے گیارہ بہن بھائیوں کے علاو¿ہ عزیزواقارب بھی اِن کے والد (لالہ غلام سرور خان) کو ’آغا جی‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل اُور بعد کی کئی دہائیوں تک پشاور کی اکثریت ہندکو اُور فارسی زبانیں بولتی اُور سمجھتی تھی۔ طرز ِمخاطب بھی اہل پشاور کا معمول اُور وطیرہ تھا کہ یہ بزرگوار ہستیوں کو ادب و احترام سے ’آغا جی‘ کہہ کر مخاطب کرتے اُور اِس لفظ میں چھپی مٹھاس و اپنائیت کے احساس اُور ذائقے کو صرف اہل پشاور ہی محسوس کر سکتے ہیں‘ جو اپنی جگہ کسی نعمت و لذت سے کم نہیں۔) اہل پشاور نے اپنی زبان و ثقافت اُور تاریخ سے تعلق کب اُور کیسے توڑا‘ اِس موضوع کے مختلف پہلوو¿ں پر کسی اُور نشست (فرصت) میں بات کی جائے گی۔ ”صلائے عام ہے یاران ِنکتہ داں کے لئے۔“

بقول شاعر کہ ”یہ بات ترک ِتعلق کے بعد‘ ہم سمجھے …. کسی سے ترک تعلق بھی‘ اِک تعلق ہے!“ پشاور سے ترک ِتعلق کرنے والوں کا اپنی ’جنم بھومی‘ سے رشتہ فاصلوں کے سبب کمزور تو ہو سکتا ہے لیکن ٹوٹ نہیں سکتا اُور آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اِس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ پشاور سے اِس رشتے کو مزید تقویت دی جائے جس کے لئے دلیپ کمار اُور کپور حویلی کو ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یوں پشاور شہر میں مزید 2 عجائب گھروں کے اضافے ساتھ ایسے مراکز کی تعداد 5 ہو جائے گی‘ جن کے دریچوں سے نہ صرف پشاور کے ماضی میں جھانکا جا سکے گا بلکہ اِس سے جنوب ایشیائی خطے کی تاریخ و ثقافت اُور یہاں کے رہنے والوں کی تہذیب و ثقافت کے علاو¿ہ اَدیان کے سفر کا مطالعہ بھی ممکن ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کا پہلا اُور قدیمی عجائب گھر ’گندھارا تہذیب‘ کے رہن سہن‘ آثار اُور بودوباش پر مبنی نشانیوں کا مجموعہ ہے جو 1907ءمیں تعمیر ہوا تھا۔ دوسرا عجائب گھر 23 مارچ 2006ءکے روز قائم ہوا اُور اِس میں پشاور شہر کے تاریخی شواہد اُور یہاں کی تہذیب و ثقافت کے نمونوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ تیسرا عجائب گھر 19ویں صدی کا تعمیراتی شاہکار بنام ’سیٹھی ہا  ؤس‘ ہے‘ جو 1845ءمیں تعمیر ہوا اُور اِسے 5 جنوری 2021ءسے عوام الناس کے کھول دیا گیا ہے۔ پشاور کا چوتھا اُور پانچواں عجائب گھر دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے آبائی مکانات ہوں گے‘ جنہیں ’ثقافتی مراکز‘ کے طور پر محفوظ اُور قریب اصل حالت میں بحال کیا جا رہا ہے اُور اِس سے پشاور کے سیاحتی مقامات کی تعداد اُور یہاں کی سیاحتی کشش میں یقینا اضافہ ہوگا۔ قابل ِذکر ہے کہ بدھ مت (ہندو مذہب) کے ماننے والوں کے لئے پشاور اُور گندھارا تہذیب کے دیگر مراکز جو کہ پشاور سے سوات (مالاکنڈ ڈویژن کے آخری کونے) تک پھیلے ہوئے ہیں ”مقدس ترین مقامات“ کا درجہ رکھتے ہیں اُور جیسا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں متوجہ ہیں تو اِس سے اُمید ہے کہ ’مذہبی سیاحت‘ فروغ پائے گی اُور پشاور میں بین المذاہب ہم آہنگی کا عملاً فروغ بھی ممکن ہوگا۔ اِس کوشش کی کامیابی سے شاید اُس بہار کا بھی گزر ہو جس سے گلدستہ نما‘ پھولوں کے شہر پشاور کا ہر پھول کھل اُٹھے۔

پھول‘ خوشبو ہوں‘ بہاریں ہوں اُور پشاور ہو

پیار کی رُت میں دعائیں ہوں اُور پشاور ہو

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: