اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملیے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے(6)|| شمائلہ حسین

میں نے ابو جی کو معاشی صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں ہر ہفتے مجھے دو سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو اس طرح سے رقم بھجوانی شروع کردی ۔تھیسس تو لکھ لیا لیکن اب اس کی کمپوزنگ اور دیگر مراحل تو کوئی مفت میں نہ کرتا ۔۔۔

شمائلہ حسین 

ملئیے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے
قسط 6:
رابعہ نے مجھے تقریباً جھنجھوڑ کر نیند سے اٹھایا ۔ میں کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اس کو ایک رات میں کونسی گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ گئی ہے کہ میرے مسئلے کا حل لے کر سون پری کی طرح آن حاضر ہوئی ہے ۔میں نے اسے طبیعت خرابی کا بہانہ بنا کر ٹالنا چاہا لیکن وہ اس قدر خوشی سے چہک رہی تھی کہ مجھے اس کی معصوم کھلکھلاہٹ کے پیش نظر اٹھنا پڑا۔ اسی ملگجے حلیے میں وہ مجھے کیمپس گھسیٹ لے گئی جاتے جاتے اس نے مجھ سے میرا فیس واؤچر ساتھ لینے کا حکم صادر کیا اور سیدھا بینک کی کھڑکی کے پاس جا رکے, میں اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ یہ پاگل تو نہیں ہوگئی یک دم سات آٹھ ہزار کا انتظام کہاں سے کر کے لے آئی ہے ۔ کیسے کیسے وسوسے اور شکوک ذہن میں آئے اور میں نے ان کا برملا اظہار بھی کیا ، کبھی اسے کہوں کہ سچ کہو چوری کی ہےیا اپنی وہ گولڈ کی نازک سی چین تو نہیں بیچ ڈالی ، کبھی مجھے لگے کہ اس نے کلاس سے چندہ اکٹھا کیا ہوگا مگر وہ شرارت سے مجھے ٹالتی رہی ۔ ہم نے فیس جمع کروائی اور اس کے بعد سیدھا کینٹین پر جا بیٹھے ۔
میرے پیٹ میں تجسس کے مارے مروڑ اٹھ رہے تھے کچھ طبیعت کی ناسازی کے باعث لگے کہ ابھی سب کچھ الٹا دوں گی لیکن اس نے پہلے تو میرے کھانے کا انتظام کیا اور جعفر کی کینٹین کا سینڈوچ آرڈر کیا پھر میرے تجسس کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
اس نے مجھے بتایا کہ آئی آر والے ہمارے دوستوں میں سے ایک کے سامنے اس دن ہم نے ذکر کیا تھا نا کہ تم جا رہی ہو بس اسی نے کسی این جی او کا بتایا تھا کہ وہ مستحق طلبا و طالبات کی مالی معاونت کرتی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے کا رزلٹ اور اب یونیورسٹی کے پہلے سمسٹر کا رزلٹ انہیں ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے ساتھ ہی ساتھ معاشی طور پر تنگ دستی کا ثبوت بھی ضروری تھا ۔ بقول رابعہ کے اس نے میری طرف سے یہ سارے معاملات طے کر کے میرے لیے وہ سکالر شپ اپلائی کر دیا اور فوری طور پر اس کا انتظام ہو گیا۔
میں بے یقینی سے اسے دیکھے گئی کہ میں نے ایسی کسی این جی او کا ذکر پہلے کیوں نہ سنا لیکن یہ وہ وقت تھا کہ ایسے میں کوئی کہتا کہ اللہ میاں خود زمین پر آکر ان روپوں کا انتظام کر کے گئے ہیں تو میں یقین کر لیتی کہ مجھے میرے شوق کی تکمیل کے لیے راستہ مل رہا تھا ۔ اس داخلے کے علاوہ رابعہ نے مجھے تین ہزار روپے بھی دیے کہ یہ تمہارے دو ماہ کے میس کا خرچہ ہے ۔
بس پھر اس کے بعد میں تسلی سے اپنی اصل میں آگئی ۔ یونیورسٹی کی زندگی کو پھر میں نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ مل کر ایسا گزارا کہ جسے یادیں تخلیق کرنا کہتے ہیں ۔ہماری کلاس میں کل ملا کر چھ لڑکے اور کافی ساری لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے ہم چاروں کے علاوہ اگر کوئی قابل ، ذہین اور یاد رہ جانے والی لڑکی تھی تو وہ تھی حنا جمشید ۔۔۔
حنا کے ساتھ میرا تعلق بھی بہت مزے کا تھا ہم ایک ہی ہاسٹل میں رہتے تھے اور امتحانوں میں کمبائن سٹڈی کے نام پر ہم ساری رات جاگ کر خوب باتیں کرتے ، قہقہے لگاتے اور ایسی ایسی شرارتیں سوجھتیں کہ الامان ، ہمارے ساتھ تیسری سہیلی تھی تسنیم سومرا وہ بہت پڑھاکو ہوا کرتی تھی وہ معصوم رٹے لگا لگا کر تھک جاتی ۔ صبح میں اور حنا اس سےکیمپس جاتے وقت چند ایک سوال اور ان کی سرسری سی تفصیل معلوم کرتے اور پیپر دے آتے ۔
لیکن جب نتیجہ آتا تو میں اور حنا اچھے نمبروں میں پاس ہوتے جبکہ تسنیم کے نمبر ہم سے کم ہوا کرتے۔ لوگوں کو لگتا ہم دونوں چھپ چھپ کے پیپروں کی تیاری کرتے ہیں لیکن آج بھی حنا اور میں اس بات کو یاد کر کے خوب ہنستےہیں ۔ حنا جمشید آج کل ساہیوال کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے ۔
شعبے میں کوئی تقریب ہوتی اس کی روح رواں ہم چار سہیلیاں ہوتیں ۔ ہمارے مرد کلاس فیلوز میں اتنی اکڑ تھی کہ وہ اسٹیج پر آنے کو پسند نہ کرتے جبکہ ہم چاروں خود ہی مردوں کے کردار بھی نبھا رہی ہوتیں ۔ خود ہی مزاحیہ ڈراموں کے سکرپٹ لکھتے ، نازک اندام کردار کے لیے رابعہ کو چنا جاتا، وجیہہ مردانہ کردار فریحہ کو دیے جاتے ، بے باک لڑکوں والا کردار زنیر ظفر نبھاتی اور میں ہر وہ کردار کرتی جسے کرتے وقت میری سہیلیاں سبکی محسوس کرتیں ۔
ہمارے اساتذہ نے ہر بار ہماری ہمت بندھائی اور ہماری صلاحیتوں کے پیش نظر ہم میں سے زنیر ظفر کو یونیورسٹی کے میگزین کی ادارت میں شامل کیا گیا۔ میں اور رابعہ ڈاکٹر عامر سہیل کی نگرانی میں چھپنے والے شعبے کے ماہانہ اخبار کے ایڈیٹرز میں شامل ہوئے اور فریحہ اسلم بھی ہمارے ساتھ ہرجگہ مو جود ہوتی۔ فریحہ اسلم اس وقت لاہور کے ایک کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے ۔
بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایک سے بڑھ کر ایک استاد وں سے واسطہ پڑا ۔ان میں سر فہرست ڈاکٹر انوار احمد ہیں ۔ کام کرنے کی جناتی صلاحیتوں سے مالا مال یہ شخص ہماری سمجھ میں کبھی نہ آتے ۔ کام ، کام اور کام کی عملی تفسیر اگر کوئی ہے تو آج تک میر ے سامنے ان کی ہی مثال ہے ۔ کوئی کتاب ، کوئی کالم ، کوئی ریسرچ پیپر یا مخطوطہ ان کی عقابی نگاہوں سے بچ نہیں سکتا ۔میں ان سے اس قدر مرعوب تھی کہ ان کے سامنے جاتے ہی میرے منہ سے سر نکلنے کی بجائے ہر بار میڈم !، آنٹی ! یا میم ! ہی ادا ہوتا۔ ایک بار میں نے گڑ بڑا کے تصحیح کرنا چاہی تو مزید خرابی ہوئی اور انہیں آپی پکار بیٹھی اس پر انوار صاحب نے ہنستے ہوئے کہا کہ ” کوئی بات نہیں عمر کے اس حصے میں کہ جس میں میں ہوں میم ، سر اور آنٹی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔”
ہمارے لیے ان کی طنزیہ مگر شگفتہ جملہ بازی حیرا ن کن تھی مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن تھا ان کا غریب طلبا کو مشور ے دینا کہ وہ کس طرح اپنی پڑھائی کے اخراجات خود اٹھانا شروع کر سکتے ہیں ۔
وہ اکثر کہا کرتے کہ ویٹا بریڈ کا ایک پیکٹ لو ساتھ چند انڈے اور ماینیز وغیرہ، ان کے سینڈوچ بناؤ اور کیمپس میں بریک کے وقت انہیں بیچو۔
ہم ایسی بات پر جھینپ جاتے ، ہمیں لگتا کہ سر ہمیں شرمندہ کروانے والے مشورے دیتے ہیں ۔
پھر شعبے کے اشاعتی سلسلے میں جو کتب شائع ہوتیں ان کے بارے میں ہم جیسے طالب علموں کو یہ رعایتی پیکج ملتا کہ دو سو روپے کی کتاب ہے تو ہمیں وہ سو روپے میں ملے گی آگے دو سو روپے میں بیچیں اور سو روپے اوپر کمائیں ۔ یہ آئیڈیا ہمیں اچھا لگا اور اس کے تحت میں مہینے میں چار سے پانچ کتابیں بیچ کر اپنے لیے کچھ روپوں کا انتظام کر لیا کرتی تھی ۔پھر سر کے توسط سے ہمیں ریڈیو پاکستا ن ملتان کے چھوٹے موٹے کوئز پروگرامز میں شرکت کا موقع مل جاتا تو کبھی وہاں سے کچھ ادائیگی ہو جاتی ۔ دو ایک بار کسی تھیسس کی پروف ریڈنگ کا کام مل گیا تو کچھ انتظام وہاں سے ہو جاتا۔
اس دوران ہوا یہ کہ میرے ابو جی ایک بار یونیورسٹی میں مجھ سے ملنے آئے ۔ میرے ٹیچرز سے ملے ، میری سہیلیو ں اور کلاس فیلوز سے ملے اس کے بعد ان کا یونیورسٹی اور ہاسٹل کے متعلق نظریہ بالکل بدل گیا ۔ وہ جو میرے یہاں آنے پر ناراض تھے یہاں سے خوش ہو کر گئے اور پھر میرے لیے ان کی محبت اور حمایت پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی ۔ اسی طرح میرا بھائی جو پہلے بھی بہت کم کسی معاملے میں رکاوٹ بنتا تھا۔ وہ بھی جب یہاں سے ہو کر گیا تو میرا ایک اورتگڑا ووٹ بن گیا۔ بھائی کے ساتھ میرا تعلق استاد شاگرد والا بھی رہا ہمیشہ، بچپن میں مجھے ریاضی اسی نے پڑھا یا اور اس وجہ سے ہی میں اس مضمون میں پور ے پورے نمبر لیتی رہی ۔ اسے شاعری کا شوق ہوا تو علم عروض سیکھتا اور آکے مجھے زبردستی سکھاتا۔ وہ کرکٹ کھیلتا اور اس کے دوستوں کی ٹیم میں واحد میں ڈیڑھ فٹ کی باولر ہوتی ۔ اس نے بائیک سیکھی تو ہم بہنوں کو زبردستی ساتھ بٹھاتا ، راستے میں گر جاتے تو ایک اور تھپڑ لگا کر کہتا کہ گھر جا کر نہیں بتانا کہ میں نے گرایا تھا۔ہم نقاب کر کے چلتیں تو غصہ کرتا کہ منہ چھپانے کی کیا ضرورت ہے سر پہ چادر کافی ہے بس نظریں جھکا کر چلنا ضروری ہوتا ۔ اس کے دیے ہوئے اعتماد نے مجھے ضرورت سے زیادہ منہ پھٹ اور بہادر بنا رکھا تھا۔وہ معاشی طور کبھی بہت زیادہ میری مدد نہیں بھی کر پایا تو بھی اس کا مجھ سے تعلق ایسا ہی رہا کہ بڑی سے بڑی مصیبت میں مجھے آخری سہارا آج بھی وہی محسوس ہوتا ہے ۔
ایسے ہی ہنستے کھیلتے کبھی پریشانیوں سے گزر کر اگلے دو سمیسٹر بھی پاس ہوگئے لیکن چوتھے سمسٹر میں آکر اس این جی او کی طرف سے امداد یک د م رک گئی ۔ یوں بھی وہ رقم مجھ تک ہر بار رابعہ کے ذریعے پہنچتی تھی اب چوتھے سمسٹر کی فیس کے وقت بہت انتظار کرنے پر بھی جب کچھ نہ پہنچا تو میں نے اپنی جمع پونجی اٹھائی کچھ ابو جی سے کہا کچھ بہنوں نے حصہ ڈالا اور فیس کا انتظام ہو گیا لیکن اس دوران میری بیماری اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور میں جو دوا کھاتی تھی اب اس کے روپے بھی نہیں بچے تھے ۔ ایک بار پھر زندگی اسی موڑ پر آ رکی۔ میں نے اپنے طور پر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی کوشش کی تو جہاں بھی جاتی انگلش میڈیم سکولوں کے بچے متھے لگتے ۔ ان کا میتھ اور سائنس انگلش میں میں پڑھا نہ پاتی اور ٹیوشن چھوڑنی پڑتی ۔
پھر ایسا وقت بھی آیا کہ کسی گھر میں جھاڑو پونچا کرنے اور روزانہ کے برتن دھونے کی ملازمت کا سن کر میں ان کے ہاں چلی گئی ۔ گھر کی مالکن مجھے دیکھا تو پریشان ہوگئی کہ تم تو کہیں سے بھی ماسی نہیں لگ رہی۔ میں نے اس کی منت کی کہ کام پر رکھ لو لیکن مجھے آدھی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو۔ اس نے مجھے ٹرائل پر رکھ تو لیالیکن شاید وہ خود بھی شرمندہ تھی ۔میں دو دن کلاسز کے بعد چپ کر کے یونیورسٹی بس پر بیٹھتی اور اس کے گھر چلی جاتی لیکن اس نے مجھے کام سے منع کر دیا اور کہنے لگی کہ میں ویسے اس سے روپے لے لوں لیکن یہ کام وہ مجھ سے نہیں کروا سکتی ۔
اب ویسے روپے کیوں لے لیتی میں ، خاموشی سے واپس آگئی ۔ اس بات کا ذکر میں نے کبھی کسی سے نہیں کیا ۔ اتنے میں تھیسس کے عنوانات فائنل ہوگئے اور ریسرچ کا کام شروع ہو گیا ۔ میں نے ابو جی کو معاشی صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں ہر ہفتے مجھے دو سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو اس طرح سے رقم بھجوانی شروع کردی ۔تھیسس تو لکھ لیا لیکن اب اس کی کمپوزنگ اور دیگر مراحل تو کوئی مفت میں نہ کرتا ۔۔۔

%d bloggers like this: