مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مار گئی مہنگائی||حیدر جاوید سید

کاروبار زندگی ہی سازشی تھیوریوں اور نفرت پر چلتا ہے۔ دونوں کا بھرم رکھنے کے لئے اخراجات تو کرنا ہوں گے۔ حق خدمت اور ثواب میں کمی کا بوجھ ظاہر ہے کہ رعایا کو برداشت کرنا ہوگا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن پاکستان کا باوا آدم نرالہ ہے۔ حکومتی سبسڈی جو ظاہر ہے آسمان سے برسی دولت نہیں، عوام کے ہی خون پسینے کی کمائی سے چلنے والا یہ ادارہ آئے روز کسی نہ کسی سکینڈل کی زد میں رہتا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کا سبسڈی پروگرام نظروں کا دھوکہ ہے یہ تو اصل میں حکمرانوں کے ’’باوفا دوستوں‘‘ کی لوٹ مار کا ذریعہ ہے۔
ظاہر ہے اب ہم یہ بات بالکل نہیں کہہ سکتے کیونکہ حکمران طبقے کی قیادت سپریم کورٹ کے سند یافتہ صالح و امین اور عوامی طور پر سمارٹ قرار پائی شخصیت کے پاس ہے۔ یقیناً اب یہ ادارہ حکمرانوں کے دوستوں کے ’’دال پانی‘‘ کا ذریعہ نہیں ہوگا بلکہ پیسے پیسے کا حساب زعفران سے نہ سہی پکی پینسل سے تو لکھا ہی جاتا ہوگا۔
خیر آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ان سطور کے لکھے جانے سے لگ بھگ دو گھنٹے قبل یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن نے رواں ماہ (ماہ ستمبر) میں پانچویں بار سٹور پر فروخت ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی دو دھاری تلوار چلادی ہے۔ سفید چنا جو یوٹیلٹی سٹور پر قبل ازیں 120روپے کلو کے حساب سے ’’دستیاب‘‘ ہوتا تھا (کب یہ نہ پوچھیں) اب اس کی قیمت میں صرف 40روپے کلو کا اضافہ کیا گیا ہے یعنی 160روپے کلو۔ یہی سفید چنا گلگت بلتستان کے یوٹیلٹی سٹورز سے 165روپے کلو ملے گا۔ قیمت میں اس اضافے کی وجہ مہنگائی بتائی گئی ہے۔
اصولی طور پر بتایا تو یہ جانا چاہیے تھا کہ حکومتی سبسڈی میں کمی ہوئی ہے یا حکومت نے سبسڈی کی مجموعی رقم میں کوئی کمی کی ہے کہ ایک ہی ماہ میں پانچویں بار اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھانا پڑیں؟ ہمارے صادق و امین اور سمارٹ وزیراعظم نے چند دن قبل اعتراف کیا تھا کہ مہنگائی میں رواں سال کے دوران جتنا اضافہ ہوا وہ پچھلے 20سالوں سے زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ مہنگائی میں کمی لانے کے لئے ہم موثر اقدامات کریں گے۔
وزیراعظم کے اس وعدہ کے اگلے روز وزیر خزانہ شوکت ترین نے نوید دی تھی کہ گھی اور کوکنگ آئلز کی قیمتوں میں 50روپے کلو کمی ہونے والی ہے۔
ان کی اس نوید کا ’’ڈھول‘‘ صنعت کاروں اور سٹاکسٹوں نے 24گھنٹے کے اندر گھی اور کوکنگ آئل کی فی کلو قیمت میں 15روپے اضافہ کرکے ’’بجا‘‘ دیا۔
ہمارے محبوب صادق و امین وزیراعظم سمیت حکومتی زعما ہمیں یہ سمجھانے بلکہ طوطے کی طرح رٹانے میں مصروف رہتے ہیں کہ مہنگائی ایک عالمی مسلہ ہے پاکستان تو مقابلتاً سستا ملک ہے رہنے اور کھانے پینے کے حوالے سے ، فقیر راحموں کے ایک دوست کہتے ہیں
” یقیناً یہ پورا سچ ہی ہے کیونکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے لئے یہ ملک دنیا میں سب سے سستا ملک ہے۔ رہنے اور کھانے پینے کے ساتھ ناز نخرے اٹھوانے کے لئے ان کا جیب سے جاتا اور خرچ ہوتا جوکچھ نہیں”۔
ملک میں مہنگائی کی بدترین صورتحال ہے گرمی کے اس موسم میں انڈے 180 روپے سے 200روپے درجن ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ موسم سرما میں قیمت کیا ہوگی۔
سوئی گیس کے گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمت میں 35فیصد اضافے کی سمری زیرغور ہے۔ بجلی اور پٹرولیم کی قیمت نے لوگوں کی مت مار رکھی ہے۔
یاد آیا کہ پچھلے برس جب ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا وعدہ کرچکی ہے اور عملدرآمد کے لئے 8ماہ سے 1سال کا وقت لیا گیا ہے تو ہمارے بہت سارے انصافی دوست کہتے تھے اپوزیشن کے حامی پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں ایسا کچھ نہیں۔
پھر نیلے آسمان کے نیچے ہر کس و ناکس نے دیکھا سنا اور بھگتا قیمتوں میں اضافے کو۔
اب بھی یہی صورت ہے وزیراعظم کے اس اعتراف کے باوجود کہ رواں سال کے دوران ہوئی مہنگائی گزشتہ 20سالوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوئی، اسے کم کرنے کے لئے کیا اقدامات ہوئے؟
وزیر خزانہ نے ماحول کی تپش کو کم کرنے کے لئے ایک بیان ضرور دیا کہ مہنگائی کی بلند شرح آئی ایم ایف سے طے پائے سمجھونے کی بدولت ہے۔
کیا اس بیان سے کچھ بہتری آسکتی ہے؟
جی بالکل نہیں وجہ یہی ہے کہ دستیاب وسائل پر ہمارے یہاں انحصار کرنے کی پالیسی پر کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔ ماضی بعید کو چھوڑیں پچھلے چالیس برسوں سے افغان پالیسی کی بدولت ہماری روزی روٹی کا وافر سامان ہورہا تھا، ہم بھی پرجوش انداز میں دنیا کے ہمنوا تھے۔ کبھی جہاد کے نام پر اور کبھی انسداد دہشت گردی کی مہم میں پرجوش عملی شرکت کا ’’ثواب‘‘ پارہے تھے۔ اب حق خدمت اور ثواب دونوں کے دروازے بند ہوگئے ہیں۔
تلخ نوائی کی معذرت جان کے لالے پڑتے دیکھ رہا ہوں کیونکہ اخراجات اور عیاشیاں وہی ہیں پرانی ہیں۔ شاعر نے بھی تو کہا تھا
’’چھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ کو لگی ہوئی‘‘
بس ہماری اشرافیہ کا بھی وہی معاملہ ہے کیسے اپنے اخراجات کم کرے کسی بھی مد کے۔
کاروبار زندگی ہی سازشی تھیوریوں اور نفرت پر چلتا ہے۔ دونوں کا بھرم رکھنے کے لئے اخراجات تو کرنا ہوں گے۔ حق خدمت اور ثواب میں کمی کا بوجھ ظاہر ہے کہ رعایا کو برداشت کرنا ہوگا۔
اس لئے بڑھاتے جائیں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں۔
خیر چھوڑیں میں آپ کو دوبارہ ابتدائی سطور کی طرف مطلب یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کی طرف لئے چلتا ہوں۔ یوٹیلٹی سٹورز نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے مہنگی لگ بھگ 59ہزار میٹرک ٹن چینی خریدی ہے۔ بیرون ملک سے منگوائی گئی یہ چینی 120روپے کلو کے حساب سے ملی ہے۔ گزشتہ روز تقریباً ساڑھے 28 ہزارمیٹرک ٹن چینی پہنچ گئی باقی بھی اللہ خیر کرے گا آہی جائے گی۔
یہ چینی مقامی طور پر فی کلو مقررہ قیمت 85روپے سے 35روپے کلو زائد قیمت پر خریدی گئی اس پر مال برداری، اندرون ملک پہنچانے پر 15روپے کلو اخراجات خود یوٹیلٹی سٹور نے بتائے ہیں۔ اس حساب سے یہ چینی یوٹیلٹی سٹور کو 135روپے فی کلو میں پڑی۔ حکومتی پروگرام کے مطابق یوٹیلٹی سٹور پر یہ سرکاری نرخ 85روپے کلو کے حساب سے فروخت ہونی ہے۔
اب حساب کیجئے، چینی خریدی 120روپے کلو گئی، مقامی قیمت سے 35روپے زائد میں۔ مال برداری کے اخراجات 15روپے فی کلو، کل ہوئے 50روپے اضافی۔ حکومت پر 50روپے اضافی بوجھ پڑا، فروخت کرنی ہے 85روپے کلو۔ بظاہر حکومت پر 50روپے کلو کا اضافی بوجھ ہے جو سبسڈی سے برداشت کرکے صارفین کو 85روپے کلو میں فروخت کی جائے گی لیکن اگر آپ صرف ایک چیز چینی پر یوٹیلٹی سٹور کے مجموعی مصارف کو تقسیم کرکے حصہ ڈالیں تو یہ 20روپے کلو ہوگا اس طور حکومت کو 70روپے کلو کا بوجھ اٹھانا ہے۔ اب سوال کیجئے کہ چینی برآمد کرنے کی اجازت کس نے دی تھی گزشتہ سیزن میں؟ سوال کرکے تو دیکھئے اگر کھٹ سے آپ غیرمحب وطن قرار نہ پائے تو۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: