مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ نیویارک تھا!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بچی کے نہ سمجھنے کے باوجود ہم نے یہ سبق اتنی بار دہراتے کہ اسے ازبر ہو جاتا۔ اب ہم جونہی یہ راگ الاپنا شروع کرتے، وہ وہیں سے مصرح پکڑ لیتی، پپی نہیں کروانی، گود میں نہیں بیٹھنا…

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسافروں سے بھری ٹرین چھکا چھک دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ زیادہ تر لوگ کھڑے تھے، کچھ سائڈ پہ نصب نشستوں پہ تشریف رکھتے تھے، ہر کوئی اپنے حال میں مست، اپنے آپ میں گم نظر آتا تھا۔ جب بھی کوئی سٹیشن آتا، کچھ لوگ اتر جاتے، کچھ سوار ہو جاتے لیکن کہیں بھی کوئی بدنظمی نظر نہ آتی۔
ہمارے ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون کی گود میں ایک ننھا منا بچہ قلقاریاں مار رہا تھا۔ کبھی منہ میں ہاتھ ڈالتا، کبھی سر گھما کے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتا۔ بچے کی معصومیت نے دل موہ لیا سو ہم اس کی طرف دیکھ کے ایک دو دفعہ مسکرائے۔ بچہ سمجھ گیا کہ ساتھ بیٹھی بڑی بی ممتا کے ہاتھوں دل پھینک ہو رہی ہیں۔ اس نے ہماری طرف ہمکنا شروع کر دیا۔ہم مزید مسکرائے۔
ابھی اس ننھے فرشتے کے گال سہلانے کی سوچ دماغ میں اتری ہی تھی کہ ساتھ بیٹھے محافظ نے بھانپ کے بالکل ویسے ہنکورا بھرا، جیسے بچپن میں اماں مہمانوں کی موجودگی میں ہماری نظر ٹرالی پہ رکھے بسکٹوں یا کیک کی پلیٹ پہ جمی دیکھ کے گھورتی آنکھوں کے ساتھ باآواز بلند کہا کرتی تھیں “اوہوں”۔
پہلو سے ایک غراتی ہوئی آواز آئی،
“اماں، بچے کو ہاتھ مت لگائیے گا”
“کیوں بیٹا، دیکھو کیسے لپک لپک کے میرے پاس آنے کے لئے ہمک رہا ہے”
” اماں، یہاں والدین اپنے بچے کو دیے جانے والے لمس کی شناخت یا پہچان کے لئے بہت حساس ہیں۔ اول دن سے ہی بچے کو اجنبی لمس سے دوری کی تربیت دی جاتی ہے جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ بچہ صرف اپنے قریبی لوگوں کے لمس پہچانے، اعتماد کرے اور ہر اجنبی لمس کو شک کی نظر سے دیکھے۔ اس لئے اجنبی غیر لوگوں کا بچے کی طرف لپکنا اور پیار کرنے کی کوشش ناپسندیدہ سمجھ کے معذرت کر لی جاتی ہے۔
پاکستان والا حساب کتاب تو ہے نہیں، جہاں ہمسائے، دوست احباب، گلی سے گزرنے والے راہگیر، نکڑ کے دوکاندار، دور دراز کے رشتے دار، حتی کہ ملازم تک بچے کو اٹھانے، سہلانے، اچھالنے اور لپٹانے کے لئے بے حال ہوئے جاتے ہیں اور ماں باپ خوشی سے نہال۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بہت قریبی بچے کی معصومیت اور قربت کا ناجائز فائدہ اٹھا جاتا ہے اور بچے کو علم ہی نہیں ہوتا کہ فلاں انکل کی بوسہ گیری کے متعلق ماں باپ کو بتانا تھا یا نہیں؟ گھریلو ملازم کی رینگتی بے چین انگلیوں کا کیا معنی تھا؟ گھرآیا کزن اتنی گرمجوشی سے لپٹا کیوں رہا تھا؟
آپ کیا بھول گئیں ہمیں کیا بتایا کرتی تھیں بچپن میں؟ “
اور پنڈورا باکس کھل گیا!
گھر میں بچوں کی آیا کے ساتھ مرد ملازمین بھی ہوا کرتے تھے، بیٹ مین، مالی، مہتر، ڈرائیور۔ گو کہ آیا کو سخت ہدایات ہوا کرتی تھیں کہ بچوں کو اکیلے نہیں چھوڑنا مگر خبریں، کہانیاں اور قصے پڑھ پڑھ کے یہ معاملہ قریب قریب خبط کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ سو ہوتا کچھ یوں کہ بیٹی کو نہایت چھوٹی عمر سے لاڈ کرتے کرتے گود میں بٹھاتے، پہلے ادھر ادھر کی کہتے، پھر کچھ یوں بات شروع کرتے،
“یہ جو تمہارے پیارے سے گال ہیں نا، ان پہ پپی صرف اماں ابا کریں گے، تمہیں بھینچ کے پیار بھی ہم ہی کریں گے۔ کبھی کسی نے تمہیں ہاتھ لگایا تو چلا کے کہنا، انکل آپ کیا کر رہے ہیں، مجھے ہاتھ مت لگائیں۔ اپنا زیر جامہ کبھی کسی کو اتارنے یا ہاتھ لگانے مت دینا۔ فورا ہم میں سے کسی کو بتانا”۔
بچی آنکھیں پٹپٹا کے پوچھتی، “اماں، آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا”۔
بچی کے نہ سمجھنے کے باوجود ہم نے یہ سبق اتنی بار دہراتے کہ اسے ازبر ہو جاتا۔ اب ہم جونہی یہ راگ الاپنا شروع کرتے، وہ وہیں سے مصرح پکڑ لیتی، پپی نہیں کروانی، گود میں نہیں بیٹھنا…
دونوں بیٹیوں کو بھگتا کے حیدر میاں کی باری آئی تو بھی یہی چلن رہا۔
حیدر لاکھ واویلا مچاتے، منہ پھیرتے، آنسو رولتے لیکن ہمارا ریکارڈ ہوا بیان رکنے میں نہ آتا۔ دونوں بیٹیاں زیر لب مسکراتیں، جانتے ہوئے کہ اماں رکنے والی نہیں۔
انہی دنوں ایک اور فیشن معرض وجود میں آیا ” سلیپ اوور”۔ ویک اینڈ پہ سب دوست کسی ایک بچے کے گھر جمع ہوتے، رات وہیں گزارنے کا بندوبست ہوتا۔ گیمز کھیلی جاتیں، فلمیں دیکھی جاتیں، شرارتوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا دور بھی چلتا رہتا۔
ہم سلیپ اوور کی اجازت دینے میں ہمیشہ متامل ہوتے۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ دیکھو ہمیں تم پہ اور تمہارے دوست پہ کلی اعتماد ہے۔ لیکن دوست کے گھریلو ملازمین اور گھر میں آنے والے اجنبی رشتےداروں کو بھلا ہم کیا جانیں سو سارا دن کھیلو کودو مگر رات اپنے اپنے گھر۔ ویسے بھی رات کا فسوں کچھ اور ہی ہوا کرتا ہے۔
اب بچہ لاکھ ہمیں منانے کے لئے سر پٹختا، دوسرے بچوں کی مثالیں پیش کرتا، آٹھ آٹھ آنسو روتا لیکن ہم زمین جنبد نہ جنبد گل محمد بن کے رخ پھیرتے ہوئے دلیل پیش کرتے کہ زمانہ پر آشوب ہو، گلی گلی رہزن ہو، تو ہم اپنی زندگی کی سب سے قیمتی متاع کو ایک شوق کے ہاتھوں داؤ پہ نہیں لگا سکتے۔
ٹرین رکنے کو تھی۔ بچہ ابھی بھی ہماری طرف دیکھتے ہوئے ہمک رہا تھا۔ ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں بلائیں لیں اور اسی زبان میں کہا،
” دیکھو تم ہمیں بہت اچھے لگ رہے ہو، ہماری ممتا تمہیں دیکھ کے پھر سے جاگ گئی ہے۔ تم بھی شاید ایک مختلف گود اور کچھ اور چاہے جانے کی چاہ میں ہماری طرف لپک رہے ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے تمہیں اس عورت سے کسی دور دراز کے دیس کی مہک آ رہی ہو اور تم اس اجنبی سرزمین کے اجنبی لوگوں کے لمس کو جاننا چاہتے ہو۔
مگر اے ننھے منے، ہماری معذرت قبول کرو۔ ابھی تمہیں صرف اپنے ماں باپ کے لمس سے آشنائی رکھنی ہے اس وقت تک، جب تک تم اپنے برے بھلے کو پہچاننے کے قابل نہ ہوجاؤ۔ خداحافظ بیٹا، پھر ملیں گے، یونہی کبھی کسی سٹیشن پہ۔
جب یہ عورت سفید بالوں والی بڑھیا کے روپ میں ہو گی اور تم جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ رہے ہو گے۔ شناسائی کی کوئی رمق باقی تو نہیں ہو گی لیکن ہو سکتا ہے تم ہمیں سہارا دینے کے لئے ہمارا ہاتھ تھام لو، اور ماضی کا وہ قرض اتار دو جب ہم تمہیں گود میں بھرنا چاہتے تھے”۔

%d bloggers like this: