اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملک غلام رسول ڈڈا یاد آئے….||ملک رزاق شاہد

ایوبی دور تک بلا مقابلہ سر پنچ چنے جانے والا ڈڈا صاحب 1999 میں اس دنیا سے رخصت ہوا لیکن آج بھی عوامی دلوں میں اپنی دانش، انسان دوستی اور بغاوت کی صورت زندہ ہے۔

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"آزادی” کے سرکاری مہینے،
ملک غلام رسول ڈڈا یاد آئے….
اس سلسلے میں رؤف خان نے عبدالقیوم عامل سے ملوایا، لعل خان احمدانی نے ان کا کلام سنایا…..
عوام کی بات ہو، دل لگی تات ہو… تو اگست کی حبس کو کیسے نہ مات ہو…. شام ڈھلے واپس چلے تو غنی ہو چکے تھے… عوامی دانش سے، بے ریا انسانیت سے.
چلیں آج ملک غلام رسول ڈڈا کے سچ کی خوشبو سے خود کو مہکاتے ہیں.
ان کی شاعری پڑھتے ہیں ان کی باتیں کرتے ہیں… اور اپنے ہیرو کو سلام پیش کرتے ہیں.
انیسویں سو تئیس میں پیدا ہونے والے ملک غلام رسول ڈڈا کا دادا گورے کی پولیس انسپکٹری، سامراجی ہتھکنڈوں کے سبب چھوڑ چکا تھا… بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے ملک غلام رسول کو طاقتور سے دشمنی خون میں بسی ملی….
گورے کے انگریزی سکولوں سے نفرت کے سبب زیادہ تو لکھ پڑھ نہ سکے لیکن زمانے نے ایسا سکھایا اور وقت نے ایسا پڑھایا کہ آج بھی وہ دلوں میں زندہ ہیں…
عبدالقیوم عامل خود شاعر ہونے کے باوجود ملک غلام رسول ڈڈا کے کلام کا حافظ ہونے پر نازاں ہیں….
برصغیر میں آزادی کی ہوا چلی تو ملک غلام رسول کے روایت شکن ذہن نے آگے بڑھ کر لہراتے جھنڈے سے پوچھا.
او تُوں ݙس ہاں جو ݙکھڑے ونڄیسیں یا کئے ناں،
تے شفقت دا کُجھ ہَتھ پھریسیں یا کئے ناں،
تُوں بُکھیں کوں ٹُکڑا کھویسیں یا کئے ناں،
تے ننگئیں کوں کپڑا پویسیں یا کئے ناں،
تشدد غریبیں توں ہٹسی یا کئے ناں،
راعونیت دا تختہ اُلٹتی یا کئے ناں.
ارض خدا پر گورے کے تعینات کردہ فرعون، انسانیت پر ستم ڈھا رہے تھے تو سرائیکی دیس میں مزاحمت کے سرخیل ملک غلام رسول کا ساتھ دینے کے لئے فیض فقیر بھی پیچھے نہ رہا…
جو عوامی مشاعروں میں کہتا
کہ۔۔
ظالم جاگیردارء مُشکی تے پیر آوی.
آج کی نسل کو یہ بتاتے چلیں کہ تمہارے اجداد سر اٹھا کر، سینہ پھلا کر کہتے تھے۔
نہ لغاری رہے نہ مزاری رہے،
جنگ جاری رہے جنگ جاری رہے۔
جنوری 1965 کے ایوبی الیکشن میں ملک غلام رسول ڈڈا نے ریاستی خوف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ڈنگے کی چوٹ پر فاطمہ جناح کو صدارتی ووٹ دے کر ثابت کر دیا کہ خوف اور جبر کو جوتے کی نوک پر کیسے رکھا جاتا ہے۔
لہور میں اقبال اپنے خدا سے شکوہ کر رہا تھا تو ہمارا غلام رسول ڈڈا عوامی جلسوں میں پہلے چپ کراتا ہے پھر رب کو یوں مخاطب کرتا ہے۔
شیخ جی میݨ میݨ تے تسبیح کڑ کڑاہٹ چپ ذرا،
بھڳت جی بھڳتی بھڄن مالا جپاہٹ چپ ذرا،
ذاکرا نوحہ قصیدہ پٹ پٹاہٹ چپ ذرا،
کالے بادل ہٹ ہوا دی سرسراہٹ چپ ذرا،
برہمن توں سنکھ ٹلیاں ملاں بانگاں بند کر،
پیر سائیں طبلے قوالی رقص ٹانگاں بند کر۔
اڄ خدا دے نال شاعر کوں الاوݨ ݙیو ذرا،
خاک دی وستی دا کجھ ذکرا سناوݨ ڈیو ذرا۔
آ ذرا مزدور دی جھڳی دیوچ سامان ݙیکھ،
گھڑا ڳندی توا تݙی تاڑ ننگی جان ݙیکھ،
ݙیکھ آ مزدور دی ملکہ تے دیوی آن ݙیکھ،
ݙیکھ ہک اڄڑی جوانی ݙیکھ آپڑیں شان ݙیکھ،
1936 کے انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس سے اپنے طبقاتی شعور کو جلا دینے والا ڈڈا صاحب ۔۔۔ اسی نظم
"دھاڑ دھاڑ” میں اپنے شکوے کا عالمگیر دائرہ بڑھاتے ہوئے کہتا ہے۔
ڄٹ تے مزدور دی روٹی دے پٹکارے وی سݨ،
مصر و ایران تے فلسطین کشمیر دے نعرے وی سݨ،
جرمنی جنجال تے جاپان دے وارے وی سݨ،
ہیروشیما دی تباہی خیز کڑکارے وی سݨ،
ہائیڈروجن بم دے گرتے موت دے نعرے وی سݨ،
نت نویں انسانیت تے ماراں تے مارے وی سݨ۔
اپنے ارد گرد بھوک، افلاس اور جاگیرداری راج دیکھنے والا ملک غلام رسول، کیمونسٹ مینی فیسٹو اور داس کیپٹل کے بغور مطالعے کے بعد عوامی سیاست میں بھر پور طریقے کے ساتھ میدان عمل آیا اور شاعری کو ذریعہ اظہار بنانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر مظلوم کے حق کی خاطر ڈٹ جانے کو مقصد زندگی بنایا۔
جب قول و فعل کا تضاد دیکھا
جب حکمرانی سراب دیکھا
جذبات میں بہکا آدم زاد دیکھا
تو برملا کہا چوک چوراہے پر با آواز بلند پڑھا۔
سدھر گئیو مسلمانو کاکا یا۔۔۔۔ ے
تے تند شر دی آیتیں وچ چا ڳھنݙیندو،
حکومت ملے تاں چودکیاں کریندو،
بھلائی دی طاقت برائی تے لیندو،
عمل تہاݙے اے ہن ٻیا کیا آکھاہیں،
سدھر گئیو مسلمانو کاکا یا۔۔۔۔ ہے،
کریندو ہاؤ ہر منٹ وچ بائی معنی،
جے فوجی تاں کینٹ وچ بائی معنی،
جے سر ویل اتے پیمنٹ وچ بائی معنی،
اینجھے بائی مان ہاؤ تاں لعنت بھیجاں ہے
سدھر گئیو مسلمانو کاکا یا۔۔۔۔ے
آزادی ملی ہے تاں واہ کیا چھکائی وے،
تے وڳڑی ہوئی قوم کیا بݨائی وے،
جیڑھا اٹھیا مخلص تے گولی ٹپائی وے،
سدھر گئیو مسلمانو کاکا یا ۔۔۔۔۔ے
بٹوارے سے پہلے 1939 میں پنجاب پنچائیت ایکٹ کے تحت جب دیہی پنچائیتیں بنیں تو عوام، کسان، مزدور نے ملک غلام رسول ڈڈا کو سر پنچ پنچائیت منتخب کیا اور ایوبی دور تک بلا مقابلہ سر پنچ چنے جانے والا ڈڈا صاحب 1999 میں اس دنیا سے رخصت ہوا لیکن آج بھی عوامی دلوں میں اپنی دانش، انسان دوستی اور بغاوت کی صورت زندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: