عباس سیال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا جب سرائیکی زبان موجودہ پاکستان سے لے کر افغانستان اور سنٹرل ایشیاء تک مختلف ناموں اور لہجوں سے جانی، پہچانی جاتی تھی۔ماہر لسانیات ڈاکٹر گریاسن نے اپنی پچیس سالہ تحقیق کے بعد ”لینگویسٹک سروے آف انڈیا“ میں ہندکو،پوٹھوہاری،سرائیکی اور سندھی زبانوں کے اشتراک اور لہجوں کے فرق کو ”لہندا“ کا نام دیا ہے۔لہندا (لاندھا)کا مطلب پاکستان کے وہ علاقے جو مغربی جانب واقع ہیں، جہاں سورج غروب ہوتا ہے۔ اپنے وقت، مخصوص فاصلوں اور دوسری زبانوں (عربی،فارسی, ہندی، اردو، اور ترکی) کے اثرات کے نتیجے میں لہندا کے مختلف لہجے وجود میں آئے، گریاسن نے اسے مختلف جغرافیائی لہجوں میں تقسیم کیا مثلاًشمالی(اُبھی)، مرکزی یا وسطی(وِچلی)، جنوبی(لمی) لہندا کا نام دیا گیا۔شمالی لہندا(پوٹھوہاری، ہندکو، سرائیکی)، مرکزی لہندا (سرائیکی) اور جنوبی لہندا (سندھی) زبان قرار پایا۔
1۔ اجڑی یا گوجری زبان: خیبرپختونخواہ کے بیشتر علاقے جہاں کی موجودہ اکثریتی زبان پشتو ہے کسی زمانے میں یہ ہندکو اور سرائیکی زبانوں کا گڑھ ہوا کرتے تھے جیسا کہ بنوں، سوات وغیرہ۔ مالاکنڈ اور ٹیکسلا سے لیکر سوات کی پوری وادی کسی زمانے میں بود ھ مت کا مرکز تھی جہاں دنیا بھر سے آئے بودھ مت کے بھکشو طلباء بدھ ازم کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے یہاں آتے تھے۔وادی سوات کوسب سے پہلے سکندر اعظم کی فوجوں نے لتاڑا،اس کے بعد وحشی ہنوں نے اسکا حسن بگاڑا، رہی سہی کسر غزنوی حملہ آوروں نے وہاں کے آخری بودھ راجہ گیرا کو ختم کر کے پوری کر دی۔ سوات میں منگلور کے قریب جہان آباد کی چٹانوں میں کندا گوتم بدھ کا دیوقامت مجسمہ آج بھی بدھ مت کی یاد دلاتا ہے۔بیرونی حملوں کے نتیجے میں سوات کے اصل مکین (بودھ) نقل مکانی کر گئے جسکے ساتھ ہی یہ سارا علاقہ اجاڑ ہو گیا۔حملے کے کچھ عرصہ بعد زندہ بچ جانیوالے چند مقامی افراد واپس لوٹ آئے،جنہوں نے سر سبز چراگاہوں پر مال مویشی چرا کر گزر بسر شروع کر دی تھی۔سوات کے ان مقامی لوگوں کو گُجر کہا جاتا تھا جو سرائیکی بولتے تھے۔گجر قوم کے افراد ہی دراصل سوات کے وہی اصل باشندے تھے۔یہ لوگ اپنی بولی کواجڑی یا گوجری کا نام دیتے ہیں (سرائیکی میں اجڑ مال مویشیوں کو کہا جاتا ہے)۔ریسرچ کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بودھ ازم کا مرکز و محور وادی سوات سرائیکی علاقہ تھا،جہاں شمالی لہندا زبان کے لہجے میں سرائیکی زبان بولی جاتی تھی۔سب سے پہلے ہنوں نے وہاں کی انسا نی آبادی کے خون سے ہولی کھیلی،بعد میں غزنوی نے وہاں سے بودھ مت کا مکمل صفایا کیا اورآخر میں یوسف زئیوں نے وادی سوات کے مقامی لوگوں کو وہاں سے بیدخل کر کے سوات کی ڈیموگرافی یکسر بدل دی۔
2۔تاجکستان کی سرائیکی: بلوچستان سے ملحقہ ایرانی علاقے(زابل اور سیستان)کے اردگرد سرائیکی بولنے والے جگدال قبائل ہزاروں کی تعداد میں آباد تھے۔یہ قبائل چنگیز خان کے دور میں ہجرت کر کے یہاں آکر بس گئے تھے،ان میں سے بہت سارے افغانستان میں دریائے والگا کے کنارے بھی آباد ہوئے۔ایرانی محقق آقائے امان اللہ جہانبانی نے اپنی کتاب ”سرگزشت بلوچستان“ میں اُن قبائل کاذکر کیاہے،جو اپنے آپکو بلوچی کہتے ہیں،مگر انہیں بلوچی زبان نہیں آتی بلکہ وہ خالص سرائیکی بولتے ہیں۔اسی طرح روسی مصنفین نے تاجکستا ن کی وادی گسار میں بسنے والے کچھ ایسے قبائل کاذکر بھی کیا ہے جوسرائیکی سے خاصی مشابہہ زبان بولتے ہیں،جنہیں وہ ”پریاہ“ زبان کا نام دیتے ہیں۔
3۔مشرقی یورپ کے سرائیکی:مشرقی یورپ میں آباد خانہ بدوشوں کا تعلق سرائیکی علاقوں سے تھا،جس میں دامان کے لوگ بھی کافی تعداد میں شامل تھے،جو پے در پے حملوں کے سبب اپنی جانیں بچا کر برصغیر سے باہر نکل گئے تھے۔مشرقی یورپ کے بیشتر علاقوں خصوصاًرومانیہ میں ان کی نسل آج بھی وہاں خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کر رہی ہے،یہ لوگ اپنے آپکو آج بھی ملتانی اور اپنی زبان کو رومانی کہتے ہیں،یورپین زبانوں کے ملاپ کے باوجود آج بھی ان کی زبان کے الفاظ سرائیکی زبان سے ملتے جلتے ہیں۔
4۔ قندھاری سرائیکی: افغانستان کے بڑے شہروں خصوصاً کابل اور قندھار پر کئی صدیوں تک ہندو شاہی راج قائم تھا، کُبہہ یعنی موجودہ کابل ان کا دارالخلافہ تھا، کابل، قندھار اور ا سکے مضافات میں اُس وقت افغانی ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے جو سرائیکی زبان بولتے تھے، ہندو شاہی حکومت کی پے در پے شکستوں کے سبب ہندو آبادی تیزی سے سکڑنا شروع ہوئی،مگر اس کے باوجود بیسویں صدی کے اختتا م تک یہ لوگ قندھار میں بڑی تعداد میں مقیم تھے۔افغانستان کے یہ ہندو ملتانی لہجے کی سرائیکی بولتے تھے جنہیں وہ قندھاری کہتے تھے۔نوے کی دھائی میں امن کی ابتر صورتحال کے پیش نظر قندھار کی ہندو آبادی وہاں سے ہجرت کر کے یورپ(جرمنی اور ہالینڈ) کی طرف ہجرت کر گئی۔ افغا نستان میں اب کوئی بھی قندھاری ہندو خاندان آباد نہیں رہا،یہ لوگ اب یورپ میں مقیم ہیں، جرمنی میں ان کی تیسری نسل آج بھی سرائیکی بولتی ہے جسے وہ قندھاری زبان کہتے ہیں۔
نوٹ: سوات، کابل، قندھار تو ایک طرف، تقسیم ہند کے بعد ڈیرہ جات(بنوں، ٹانک، کلاچی،پہاڑ پور، پروآ، میانوالی، عیسیٰ خیل، بھکر، دریا خان، کوٹلہ جام، منکیرہ، لیہ، کروڑ، ڈیرہ غازی خان) سمیت جھنگ، خانیوال، ملتان، بہاولپور،بہاول نگر،مظفر گڑھ، رحیم یار خان،اوکاڑہ، ساہیوال، خوشاب،پاک پتن،راجن پو ر سمیت صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں سرائیکی بولنے والی ہندو آبادی خصوصاً گوٹھکی،خیر پور، نو شہرو فیروز،، سکھر،کشمور،لاڑکانہ،شکار پور،دادو، صوبہ بلوچستان میں سبی، جعفر آباد، جھل مسگی، ناصر آباد،جیکب آباد کے ہندو ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا بسے ..تقسیم کے بعدسرائیکی خطے کے کئی شہروں کی ڈیمو گرافی اب مکمل طور پر بدل چکی ہے مگر ان سب کے باوجود آج بھی سرائیکی زبان پاکستان کی سب سے بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے جو اپنی تاریخ، جغرافیہ (پہاڑ، دریا، صحرا، میدان)، زبان، تہذیب و ثقافت رکھنے کے باوجود سات دھائیوں سے بے شناخت چلی آرہی ہے۔ سرائیکی قوم کے اصل دشمن یہاں پر مسلط کردہ جاگیردار، خان،مخدوم اور وڈیرے ہیں کہ جنہوں نے اس خطے کو پسماندہ رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سرائیکی خطے کی عوام کو چاہیے کہ وہ وفاق اور پنجاب کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے سب سے پہلے اپنے اپنے علاقوں پر مسلط کردہ حکمرانوں کے خلاف ایک بہت بڑی عوامی تحریک چلا کر اُن سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان حکمرانوں سے چھٹکارا پائے بغیر ا س خطے کی ترقی ممکن نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال
دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال
عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے
مصنف کا تعارف
نام: غلام عباس سیال
تاریخ پیدائش: دس جنوری 1973
مقام پیدائش: ڈیرہ اسماعیل خان
تعلیم: ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
۱۔ خوشبو کا سفر (سفرنامہ حجا ز) دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔ اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔ ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع: سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008، پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
۳۔ گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت 2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔ کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک (سفرنامہ) ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔ سن اشاعت 2011۔ پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔ ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔ یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی جو بنکاک میں مقیم ہیں اور یو این او میں جاب کرتے ہیں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ ہندو شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر اتل بگائی نے کتاب کو کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان) سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013، ناشر: مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔ جو ہم پہ گزری۔ (موضوع: پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014 کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔ برٹش عہد 1893 ء میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت 2015 ۔ ناشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔ انگریز محقق ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب دا ڈسٹرکٹ آف ڈیرہ اسماعیل خان ٹرانس انڈس 1871، کا اردو ترجمعہ۔ اشاعت 2016۔ پبلشر: سپتا سندھو پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔ دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی) سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔ اشاعت اگست2018۔
پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر