اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ مظفر گڑھ اور اسکی حالت زار کے بارے میں۔۔|| مہرین فاطمہ

1964ء میں پہلی تھل جوٹ مِل (ایشیا کی سب سے بڑی جوٹ مل) کے قیام کے بعد سے مظفّرگڑھ میں ترقی کا دَور شروع ہوا،اس سے قبل یہاں کے باشندوں کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی تک محدود تھا۔ ا

مہرین فاطمہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظفّرگڑھ، صوبہ پنجاب کا ایک زرخیز ضلع ہے، مجاہد اعظم نواب مظفر خان شہید حاکم ملتان نے 1794ء میں مظفرگڑھ کی بنیاد رکھی۔
1796ء عیسوی میں اسے صدر مقام کی حیثیت دی گئی ۔
شہر مظفر گڑھ 1818عیسوی تا 1848عیسوی تک سکھ عملداری میں رہا۔ اس دوران مظفرگڑھ کی بجائے خان گڑھ کو صدر مقام بنایا گیا۔
1849ء عیسوی میں یہ شہر انگریزوں کے زیر تسلط آ گیا۔
1869ء عیسوی میں مظفرگڑھ کو ٹائون کمیٹی کا درجہ دیا گیا۔
اس وقت یہ 4 تحصیلوں رنگ پور، کنجھر خان گڑھ اور سیت پور پر مشتمل تھا، جب کہ گڑھ مہاراجہ اور احمد پور سیال بھی اس کا حصّہ تھے۔1861ء میں مظفّر گڑھ سے رنگ پور تحصیل ختم کرکے، گڑھ مہاراجہ اور احمد پور کے علاقے جھنگ اور کوٹ ادو، ضلع لیّہ سے علیحدہ کر کے اس میں شامل کر دیئے گئے۔ بعد ازاں، 1909ء میں لیّہ کوبھی مظفّرگڑھ سے علیحدہ کرکے اور ضلع کا درجہ دے کراس کا ڈیرہ غازی خان سے الحاق کردیا گیا۔
ضلع مظفّرگڑھ اپنی تہذیب و ثقافت،زراعت و صنعت،سیاست و تجارت،علم و ادب اور جغرافیائی محلِ وقوع کی بنا پر منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی 4 تحصیلیں کوٹ ادو ، مظفّرگڑھ، علی پور اور جتوئی ہیں۔ مشرق میں دریائے چناب اور مغرب میں دریائے سندھ بہتے ہیں۔45 لاکھ سے زائد آبادی کے اس ضلع کا کُل رقبہ 8249 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔مقامی زبان سرائیکی کے علاؤہ یہاں پنجابی اور اردو بھی بولی جاتی ہے۔87 فی صد لوگ دیہات اور 13 فی صد شہروں میں رہتے ہیں۔ آب و ہوا مجموعی طور پر گرم اور خشک ہے اورزیرِ کاشت رقبہ گیارہ لاکھ بیس ہزار آٹھ سو نوّے ایکڑ ہے۔ اہم فصلوں میں گندم، کپاس، گنّا، چاول شامل ہیں، جب کہ کھجور، آم اور انار کے باغات ضلع کی وجۂ شہرت ہیں۔ تمام قسم کی سبزیوں کی پیداوار کے علاؤہ لائیو اسٹاک اور فشریز میں بھی مظفرگڑھ کا شمار صف ِاوّل میں ہوتا ہے۔ ضلع کے 984 مواضعات میں بہترین نہری نظام موجود ہے، جو زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے، جب کہ کوٹ ادو کے نزدیک تونسہ بیراج اور علی پور کے نزدیک ہیڈ پنجند میں پانچوں دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے۔ ڈیلٹائی خصوصیات کی بِنا پر فصلوں اور پھلوں کا معیار اعلیٰ ہے، تو ریونیو کے اعتبار سے بھی مظفّر گڑھ صوبے بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہاں کے زیادہ تر غریب اور محنت کش طبقے کا گزر بسر محنت مزدوری اور کھیتی باڑی پر ہے، جس کی وجہ سے خواندگی کی شرح خاصی کم ہے۔

1964ء میں پہلی تھل جوٹ مِل (ایشیا کی سب سے بڑی جوٹ مل) کے قیام کے بعد سے مظفّرگڑھ میں ترقی کا دَور شروع ہوا،اس سے قبل یہاں کے باشندوں کا ذریعۂ معاش کھیتی باڑی تک محدود تھا۔ اس وقت ضلع میں متعدد ٹیکسٹائل، جوٹ، کاٹن، شوگر اور فلور ملز کے علاؤہ 300رجسٹرڈ کارخانہ جات بھی ہیں، جب کہ یہاں قائم 3بڑے تھرمل پاور اسٹیشن پورے ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کا بیس فی صد سے زائد مہیّا کرتے ہیں۔ علاؤہ ازیں، 1996ء میں قصبہ گجرات میں قائم کی گئی ایک وسیع آئل ریفائنری سے روانہ ایک لاکھ بیرل تیل پورے ملک کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

1770ء سے 1794ء کے دوران تعمیر کیے گئے قلعہ مظفّر گڑھ اور قلعہ خان کے علاؤہ قلعہ محمود کوٹ،قلعہ غضنفر گڑھ،قلعہ دائرہ دین پناہ،قلعہ شاہ گڑھ جیسے تاریخی مقامات اگر چہ ماضی کا حصّہ بن چکے ہیں، تاہم ان کی باقیات اور نشانیاں اب بھی ماضی بعید کی یاد دلاتی ہیں۔ 1475 ء میں تعمیر کی گئی شاہی مسجد اور مقبرہ طاہر خان نہڑ بھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں، جب کہ 1909ء میں تعمیر کیا گیا ’’وکٹوریہ میموریل ہال‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ 1988 ء میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے اس کا نام تبدیل کرکے ’’یادگار کلب‘‘ رکھ دیا۔

جتوئی شہر کے نزدیک گاؤں کوٹلہ رحم علی شاہ میں واقع مسجد’’ سکینتہ الصغریٰ‘‘ ترک فنِ تعمیر کا نمونہ، ہے، جو 32 گنبدوں اور 2 بڑے میناروں پر مشتمل ہے۔مسجد کا کل رقبہ 52 کنال ہےاور اس میں 5 ہزار افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔شہر کا واحد ’’فیاض پارک‘‘ قریباً 4 دہائی قبل اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر فیاض بشیر کی ذاتی دل چسپی اور کاوش سے قائم ہوا، تاہم یہ خوب صورت پارک بھی سیاست اور کرپشن کی نذر ہوکر اجڑ گیا، اور اب نشے کے عادی افراد اور ہیروئنچیوں کی آماجگاہ ہے، جب کہ سعودی فرماں رواں، شاہ فیصل کے نام پر تعمیر کیا گیا ’’فیصل اسٹیڈیم‘‘ بھی ضلعی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کرقریباً غیر فعال ہوچکا ہے۔ اسی طرح برطانوی دورِ حکومت میں بنائے جانے والے ریلوے اسٹیشن سمیت اس دَور میں تعمیر کیے گئے ڈپٹی کمشنر آفس ڈسٹرکٹ جیل، ضلع کاؤنسل ہال، پوسٹ آفس محکمہ انہار اور محکمہ صحت کے دفاتر بھی اپنی مدت پوری کرکے بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکے ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قدیم تعمیرات پر خصوصی توجّہ دے کر انہیں دو بارہ ماضی کی طرح جاذبِ نظر اور فعال بنایا جائے۔مظفّرگڑھ میں ہیڈ تونسہ بیراج اور ہیڈ پنجند جیسے اہمیت کے حامل مقامات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔تاہم،بدقسمتی سے وافر آمدنی کے حامل ضلع میں درست حکمتِ عملی کے فقدان اور کرپشن کے باعث پَس ماندگی اور غربت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
یہاں کے لاتعداد مسائل میں معیاری تعلیم کا فقدان بھی ہے۔ضلع مظفرگڑھ میں بہت سے مشہور پرائیویٹ کالج ہیں جن سے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان کالجز میں بچے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر گھر رہ کر مزدوری وغیرہ کرتے ہیں کیوں کہ ضلع مظفرگڑھ میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے اور یہاں کی غریب عوام اپنے بچوں کو مزید پڑھانے کیلئے بڑے شہروں میں نہیں بھیج سکتی حالانکہ ہر سال بورڈ کے امتحانات میں ضلع مظفرگڑھ سب سے آگے ہوتا ہے پوزیشن ہولڈر طلبا مظفرگڑھ سے ہی ہوتے ہیں ۔ مظفرگڑھ کی سیاسی شخصیات نے بھی اپنی غریب عوام کے لیے کبھی نہیں سوچا اس 74 سالہ پاکستان کی تاریخ میں ضلع مظفرگڑھ کو یونیورسٹی تو دور کسی بھی یونیورسٹی کا کیمپس تک نہیں ملے ۔ مظفرگڑھ کے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگایا جا رہا ہے آئے روز طلبا احتجاج کرتے ہیں یونیورسٹی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن بے سود۔
اس کے برعکس مظفرگڑھ سے علیحدہ شدہ ضلع لیہ اُس میں کم وبیش چار یونیورسٹیوں کے کیمپس ہیں اور کچھ دن پہلے لیہ میں ایک بڑی یونیورسٹی (یونیورسٹی آف لیہ) بنانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے لیکن مظفرگڑھ میں نوجوان ایف ایس سی کرنے کے بعد بھی مزدوری کرتا نظر ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔اکثر والدین بچوں کو اس لیے بھی سکول نہیں بھیجتے کہ ہم تو آگے آپ کی پڑھائی کا خرچہ نہیں اٹھا سکیں گے تو کیوں نا ابھی سے مزدوری شروع کر دو اور اپنے ماں باپ کا سہارا بنو۔
ہماری نوجوان نسل کا حق کھایا جا رہا ہے ہماری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ہمیں ایک یونیورسٹی دی جائے تاکہ ہمارے نوجوان تعلیم حاصل کر کے پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں اور اپنے ماں باپ کا سہارا بن سکیں ۔
غربت، بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی، جاگیرداری نظام، کرپٹ سیاست دان اور بیورو کریسی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ملّت کی تعمیر جیسے عظیم مقصد کو پسِ پشت ڈالنے کے باعث ضلع میں جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، خودکشی، قتل و اقدامِ قتل، خواتین پر تشدد، لڑائی جھگڑے، اغوا و زیادتی، چوری ڈکیتی، گھریلو جھگڑے اور طلاق کے واقعات کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ستم بالائے ستم متعدد وسائل کے باوجود یہاں کے عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ سرکاری اسپتال تو موجود ہیں، لیکن علاج معالجے کی دیگر سہولتوں اور ادویہ کی کمی کے باعث تقریباً غیر فعال ہیں۔ پھر موذی اور وبائی امراض کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے باعث بھی ہر سال ہزاروں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

ضلع کی پَس ماندگی کی ایک بڑی وجہ، طویل عرصے سے یہاں کی سیاست میں چند خاندانوں کی اجارہ داری کو بھی قرار دیا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ ان خاندانوں میں کھر، قریشی، ہنجرا، بخاری، دستی، نواب، گرمانی، جتوئی، گوپانگ، چانڈیہ، لغاری اور سیال شامل ہیں۔ جب کہ ان ہی سرداروں میں سردار کوڑا خان مرحومؒ کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،جنہوں نے اپنی ہزاروں ایکڑ اراضی غریب و نادار لوگوں کے لیے وقف کرکے خدمتِ خلق کی عظیم مثال قائم کی۔ آج بھی ان کی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی نادار و مستحق افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جارہی ہے.
زرعی لحاظ سے یہاں کی زرخیز زمینیں بہترین پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن نہری پانی کی غیر مساوی تقسیم اور پانی کی چوری کے باعث چھوٹے کاشت کاروں کی زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ ضلع کی زرخیز زمینوں کا بیش تر حصّہ سرکاری تحویل میں ہے، اگر یہ زمینیں کاشت کاری کے لیے غریب ہاریوں کو دے دی جائیں، تٖو کروڑوں روپے ماہانہ آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی قبضہ مافیا نے کل سرکاری رقبے کے آدھے سے زیادہ حصّے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: