مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان۔ بدلتا ہوا منظرنامہ ایک سوال||حیدر جاوید سید

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں جنگجووں نے پل چرخی اور بڈگرام کی جیلوں سے قیدیوں کو رہا کردیا ہے الجزیرہ سمیت کئی چینل لائیو نشریات کے ذریعہ کابل دیکھا رہے ہیں عین مکن ہے ان سطور کی اشاعت تک کابل میں نئے حکمران ہوں گے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں نقشہ جس تیزی سے بدل رہا ہے اس حوالے سے اندازے قدرے غلط ثابت ہوئے۔ ہمارے وہ دوست جو اطلاعات کا ذریعہ تھے اب ان کے علاقوں میں افغان حکومت کی جگہ جنگجووں کا قبضہ ہے۔
جنگجو جس تیزی سے آگے بڑھے اور جس "پھرتی” سے افغان فوج نے ہتھیار ڈالے کیا اسے امارات اسلامی کا معجزہ سمجھ لیا جائے؟
غالباً معجزہ کہنا تو درست نہیں ہوگا بلکہ ازسرنو امریکی حکمت عملی کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم صرف قوم پرستوں پر غصہ اتار کر سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تو اس کی ہر کس و ناکس کو شخصی آزادی ہے لیکن چند دن پیچھے چلیں۔
جب افغان صدر اشرف غنی نے اپنے آرمی چیف کو برطرف کرتے ہوئے نیا آرمی چیف نامزد کیا تھا۔
مزار شریف میں ذرائع ابلاغ کے لئے معاونت کی خدمات فراہم کرنے والے محکم علی ہاشمی تب کہہ رہے تھے
’’آرمی چیف کی برطرفی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے افغان نیشنل آرمی کی علاقائی کمانڈ کو باضابطہ حکم دیا کہ وہ جنگجووں سے جنگ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ان سے محفوظ راستہ حاصل کریں۔‘‘
کابل میں جب اس حوالے سے وزارت دفاع کے رابطہ کار افسر عبداللہ محمد تاجک سے پوچھا گیا کہ
’’کیا محفوظ راستہ حاصل کرنے کی حکمت عملی آرمی چیف اور صدر اشرف غنی کے درمیان اختلافات اور پھر آرمی چیف کی برطرفی کی وجہ بنی؟‘‘
ان کا جواب تھا
’’آخری فیصلہ صدر اشرف غنی کا ہی سمجھا جائے گا‘‘۔
مطلب دال میں کچھ کالا تھا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ پوری دال ہی کالی تھی۔
افغانستان سے رخصت ہونے والی امریکی فوجی کمان اورافغان آرمی چیف کے درمیان معاملات اس طور طے پاگئے تھے جیسا منظرنامہ دیکھائی دے رہا ہے۔ پینٹاگون اور وائٹ ہاوس ایک پیج پر تھے، افغان نیشنل آرمی کی کمانڈ ان کی ہم خیال۔
سوال پھر یہ ہے کہ کیا امریکیوں نے صدر اشرف غنی کو اندھیرے میں رکھا اور افغان آرمی کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرلئے؟
بظاہر اس رائے میں وزن لگتا ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ امریکی طالبان کو پیش قدمی کا محفوظ راستہ دلوانے کا وعدہ اس شرط پر کرچکے تھے کہ طالبان بدلے میں چین اور پاکستان کو محفوظ تجارتی گزرگاہ نہیں دیں گے۔ حالات و واقعات اس سمجھوتے کی تصدیق کرتے ہیں۔
افغان نیشنل آرمی کی کمانڈ (برطرف آرمی چیف) اپنے حصے کا کام کرچکی تھی تب اشرف غنی کو احساس ہوا کہ پرانے آقا ان سے ہاتھ کرگئے ہیں۔
یہ بات بالکل حیران کن نہیں کہ ایرانیوں نے افغان ایران سرحدی چوکیوں بالخصوص آمدورفت کے قانونی راستوں پر افغان جنگجووں کا قبضہ کرانے کے لئے عملی سہولتیں کیوں فراہم کیں۔
ہماری طرف کے بعض سرحدی مقامات پر جنگجو کیسے قابض ہوئے؟
دو تین کہانیاں ہیں ایک وہی جو ایران کے حوالے سے ہے دوسری یہ کہ افغان نیشنل آرمی کے ہیڈ کوارٹر سے جاری احکامات پر پسپائی اور پھر ہتھیار ڈالنے کا عمل ہوا۔ تیسری کہانی جنگجووں کی ہے۔ "جی ایسا کچھ نہیں افغان آرمی ہمارے سیلاب کے سامنے رک نہیں پائی”۔
بہت ادب و احترام کے ساتھ پھر اس تلخ سوال کا جواب کیا ہوگا کہ 20سال بعد جس یا جن "غیبی” طاقتوں کو جنگجووں پر ترس آگیا انہوں نے20 برس استخاروں میں کیوں ضائع کئے؟
ان سطور کے لکھے جانے کے 48گھنٹے قبل امریکی وزارت دفاع نے کہا 5ہزار امریکی فوجی دوبارہ کابل بھجوائے جارہے ہیں یہ کہ3ہزار فوجی کابل پہنچ چکے ہیں اورمزید 2ہزار بھی پہنچ جائیں گے ( لیکن لگتا ہے کہ امریکی جھوٹ بول رہے ہیں )کیا پانچ ہزار امریکی فوجی مغربی سفارتی انخلاء کے عمل کی نگرانی و حفاظت کے لئے آئے ہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکیوں نے گزشتہ روز قندھار ایئرپورٹ پر بمباری بھی کی۔ بلخ اور ہرات میں بھی بعض مقامات پر امریکی طیاروں کی بمباری کی اطلاعات ہیں۔ امریکی ڈبل گیم کے عادی ہیں۔ بعض ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ 5ہزار امریکی فوجیوں کی کابل واپسی کے 2مقاصد ہیں اولاً محفوظ سفارتی انخلا کے عمل کی نگرانی ثانیاً ایران اور پاکستان کے حوالے سے جنگجووں سے کچھ مزید یقین دہانیوں کا حصول۔ جنگجو امریکی شرائط مانتے ہیں یا پہلے سے طے شدہ امور پر حرف بہ حرف عمل کا وعدہ کرتے ہیں تو کابل بھی مزار شریف کی طرح طشتری میں رکھ کر پیش کیا جائے گا۔
جو بات چبھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ جنگجووں نے قندھار کے علاوہ ہر جگہ اس سمجھوتے کو ترجیح دی کہ ہتھیار ڈالنے والے عام اہلکار گھروں کو چلے جائیں۔ کمانڈ اور انتظامی افسران (ضلعی و صوبائی) کابل کی طرف جانے کا محفوظ راستہ لے لیں۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ہرات میں جوابی مزاحمت کی بعض اطلاعات موصول ہوئیں۔ جوابی مزاحمت کو بعض اطلاعات کے مطابق غیریقینی کامیابی ملی اور جنگجوئوں سے 2مطالبات کئے گئے اولاً وہ ہرات صوبے سے نکل جائیں ثانیاً کمانڈر اسماعیل خان (گورنر ہرات) کو واپسی کا راستہ دیا جائے۔ فوری طور پر کامیاب جوابی مزاحمت اور 2 مطالبات کے درست یا قطعی غلط ہونے کے حوالے سے حتمی رائے اس لئے مشکل ہے کہ جنگجووں نے اطلاعاتی نظام کو کہیں تباہ کیا اور کہیں معطل۔
یہ درست ہے کہ جنگجووں کے خلاف ابتدا میں جو عوامی مزاحمت شروع ہوئی تھی وہ چند دن سے زیادہ نہیں چل پائی۔
عام شہری افغان نیشنل آرمی کے ساتھ مل کر لڑنے پر تیار تھا لیکن نیشنل آرمی نے عوامی توقعات کے برعکس فیصلہ کیا اور محفوظ راستے کے لئے اس صورت میں تنہا صرف شہری کیسے مزاحمت کرتے؟
اسی لیے شہریوں نے بعض مقامات پر بھاگتے ہوئے افغان فوجیوں پر پتھراو کیا اور نعرے بازی بھی کی یہاں یہ عرض کردینا بہت ضروری ہے کہ ماضی میں جو داو ہم امریکیوں سے کھیلتے رہے اس بار امریکی ہم سے کھیل گئے۔
امریکی قیادت کا ہماری قیادت سے رابطہ نہ کرنا، ہمارے قومی سلامتی کے مشیر کے ہنگامی دورہ امریکہ میں ناکامیوں اور شرمندگی کی دولت سے فیض یاب ہونا اور یہاں جوبائیڈن کے فون کا ہمیں تو انتظار ہی نہیں کی مسلسل گردان۔
ان سب میں عقل والوں کے لئے نشانیاں بہت ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے ہفتہ کو کابل کی دفاعی کمان میں چند اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ کیا یہ تبدیلیاں سقوط کابل کے مانع ہوپائیں گی؟
اس سوال کا جواب اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں سب کے سامنے ہوگا۔ آخری بات یہ ہے کہ این جی او مافیا اب کس منہ سے مہاجرین کو پاکستان میں داخلہ کی اجازت دینے کے لئے رونا رورہا ہے؟
کیا پہلے سے مقیم افغان مہاجرین کی نئی نسل پچھلے کچھ برسوں میں سیاسی اور انتظامی مسائل پیدا کرنے کی مرتکب نہیں ہوئی۔
ضمنی سوال یہ ہے کہ دوسرے پڑوسی ممالک مہاجرین کے لئے سرحدیں کھولنے پر آمادہ کیوں نہیں۔ سارا زور پاکستان پر کیوں دیا جارہا ہے۔
کیا یہ بھی کسی نئے کھیل کا حصہ ہے؟ اور یہ بھی کہ پچھلے چند دنوں کے دوران پاکستانی پشتون علاقوں اور ایک مسلک کے مدارس میں افغان جنگجووں کے حق میں جوش و خروش دیکھنے میں آرہا ہے یہ خطرے کی گھنٹیاں نہیں؟
ان دو سوالوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پسِ نوشت
کالم لکھ چکا تھا کہ افغان جنگجووں کے کابل کے دروازے پر دستک اور ملابرادران کی صدارتی محل میں افغان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات و مزاکرات کی اطلاعات ملیں
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کہہ رہے ہیں جنگجووں نے پل چرخی اور بڈگرام کی جیلوں سے قیدیوں کو رہا کردیا ہے الجزیرہ سمیت کئی چینل لائیو نشریات کے ذریعہ کابل دیکھا رہے ہیں عین مکن ہے ان سطور کی اشاعت تک کابل میں نئے حکمران ہوں گے

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: