مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ غازی خان کے ممتاز خاندان اور افراد – ایک مختصر جائزہ||ساجد منصور قیصرانی

راجن پور تحصیل میں کلہوڑا فیملی کے علاوہ مہر والا اور کوٹلہ سکھانی کے بزدار کرسی کے حق دار تھے۔ بزداروں کی زمینیں مہرے والا، کوٹلہ سکھانی، کوٹ مٹھن، کوٹلہ نبی شاہ، گجر والی، اور باغون میں پھیلی ہوئی تھیں
ساجد منصور قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ڈیرہ غازی خان کے سیاسی اور سماجی افق پر بلوچ سردار چھائے ہوئے ہیں ، لیکن پاکستان بننے وقت تک ایسا نہیں تھا۔ اس وقت ڈیرہ غازی خان شہر اور مضافات کے کئی غیر بلوچ لوگوں کا ضلع کی سیاسی اور سماجی زندگی میں گہرا عمل دخل تھا۔ شہر کی حد تو ایسا 1970 کی دہائی تک رہا۔
ڈیرہ غازی خان کی پہلی سیٹلمنٹ رپورٹ (1876)کے مطابق ضلع میں سب سے زیادہ اراضی بلوچوں کے پاس تھی ۔ ان کی ملکیت کا کل رقبہ ایکڑوں میں 1،928،404تھا ۔ دوسرے نمبر پرجٹ آتے تھے جن کی کل ملکیت 484،982 ایکڑ تھی۔ پھر ہندو آتے تھے جن کی کل ملکیت 220،066 ایکڑ تھی۔ سیدوں کی ملکیت 108،648 ایکڑ تھے۔ ارائیں 16،993 ایکڑ اورقریشی 12،922 ایکڑ اراضی کے ملک تھے۔ مختلف مزاروں کے مجاوروں کے پاس 41،224ایکڑ رقبہ تھا۔ ضلع کے پٹھان 28،685 ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ ضلع کے سابق حکمران خاندانوں کی ملکیت رقبہ اس طرح تھا :کلہوڑہ خاندان 4،150 ایکڑ ، نہر خاندان 2،889 ایکڑ۔ جبکہ لودھیوں کے پاس صرف 147 ایکڑ تھے۔
رپورٹ کے مطابق سیٹلمنٹ کے وقت سب سے ممتاز خاندان سرائی تھا، جسے میاں صاحب سرائی کہا جاتا تھا۔ یہ سندھ کے کلہوڑہ حکمرانوں کی نسل سے تھے۔ خاندان کا مرکزی قصبہ حاجی پور تھا۔ خاندان کے سربراہ کو جام صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد تالپوروں نے کلہوڑا خاندان کو1772 میں سندھ سے نکال دیا اور وہ ڈیرہ غازی خان آباد ہوئے۔ حاجی پور کے 35 گائوں کلہوڑہ خاندان کی جاگیر میں شامل تھے ۔ یہ جاگیر خاندان کے سب سے بڑے بیٹے کو ملتی تھی اور اسے شاہ نواز خان کا خطاب بھی ملتا تھا۔
سیٹلمنٹ کے زمانے میں بلوچ قبائل شہروں اور قصبوں سے باہر تمنوں کی صورت میں رہتے تھے۔ اور ان کے سرداروں کا شمار ضلع کے ممتاز افراد میں ہوتا تھا۔
سیٹلمنٹ کےوقت باقاعدہ تمن آٹھ تھے۔ سب سے شمالی تمن قیصرانی تھا جس کا سردار فضل علی خان تھا۔ اس کے بعد شادن لُنڈ کا سوری لُنڈ قبیلہ تھا جس کا سردار فضل علی خان تھا۔ اس کے بعد کھوسہ تمن آتا تھا جس کا سردار سکندر خان کھوسہ تھا۔ کھوسوں کے بعد لغاری آتے تھے جن کا سردار جمال خان تھا۔ لُنڈ قبیلے ایک اور شاخ جام پور میں ٹبی لُنڈان میں رہتی تھی جس کا تمندار مزار خان تھا۔ محمد پور دیوان ان کی ملکیت تھا۔ اس کے بعد گرچانی قبیلے آتا تھا جس کا تمن دار غلام حیدر خان تھا۔ دریشک جام پور اور راجن پور دونوں تحصیلوں میں آباد تھے۔ ان کا تمن دار میرن خان تھا۔ مزاری راجن پور کے جنوب میں آباد تھے، ان کا تمندار امام بخش خان تھا۔
اسد خان نتکانی کی انگریزوں سے مخاصمت اور بعد میں بہاولپور ہجرت کے بعد تحصیل تونسہ کے سب سے بڑے اور طاقتور قبیلے نتکانی کا تمن ختم ہو گیا تھا جس کی وجہ قبیلہ اور اس کے افراد، اس زمانے سے آج تک سیاسی اور سماجی زندگی میں وہ مقام حاصل نہیں کر پائےجس کےوہ مستحق ہیں۔ بزدار قبیلہ پہاڑ میں رہتا تھا اور سیٹلمنٹ کا حصہ نہیں تھا۔ وہوا کے کھتران اس وقت تک ڈیرہ اسماعیل کا حصہ تھے۔۔ وہوا کے علاوہ لِتڑا، جَلُو والی، کُہر، کُوتانی ان کی بڑی آبادیاں تھیں۔ ۔ بعد میں بزدار قبیلے اور کھتران قبیلے کے علاقوں کی ضلع میں شرکت سے تمن دس ہو گئے۔
بلوچ تمن داروں کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کا شمار ضلع کے ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا اور انہیں صوبائی دربار میں کرسی ملتی تھی۔ ان میں تحصیل تونسہ کے مسو خان نتکانی، بستی عظیم کے مہر شاہ اور نتکانی کے کوڑا خان قیصرانی شامل تھے۔ ضلع کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر (1898)کے مطابق مہر شاہ کے علاوہ پنج گرائوں کے شاہ محمد شاہ اورمَٹی کے صادق محمد خان کھوسہ بھی تحصیل کی اہم شخصیتیں تھیں۔ نتکانی قبیلے کے ہیرو کے مقدم سردار خان تنگوانی اور سوکڑ کے امام بخش خان ملغانی کا شمار بھی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ بعد میں تونسہ کے خواجگان بھی اس صف میں شامل ہو گئے۔
تحصیل ڈیرہ غازی خان میں تمنداروں کے علاوہ ممتاز لوگوں میں پیر عادل کے احمد شاہ، مرہٹہ کے دِینن شاہ، اور شہر کے غلام مصطفےٰ، علی بخش، اور عبدالرحیم سدوزئی شامل تھے۔ اس کے علاوہ پیر محمد پوپل زئی، جھوک اترا کےمیاں فتح محمد ڈاہا، سخی سرور کے نور مجاور، اور قادر بخش احمدانی کو بھی دربار میں کرسی ملتی تھی۔ ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق بستی ملانہ کے ملک مٹھہ بھی ایک دولتمند زمین دار تھے۔ گزیٹیئر کے مطابق ڈیرہ غازی خان کی حکمران فیملی کے محمد خان مرانی بھی شہر میں رہتے تھے۔ ہندوئوں میں کُنج لال اور روشن لال تھے جو شام جی اور لال جی کے مندروں کے رکھوالے تھے۔ درباری لال ایک دولت مند بینکر تھے اور حکیم بالا رام ایک معروف طبیب۔
جام پور تحصیل میں کوڑا خان جتوئی اوربستی پناہ علی کےمیاں عاقل محمد کو کرسی ملتی تھی۔ لُنڈی پتافی کے احمد خان پتافی بھی ایک بڑے زمیندار تھے۔ ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق ہیرو کے برخور دار خان، کوٹلہ مغلاں کے مرزا عبداللہ، اور جام پور کے ملک غلام نبی بھی تحصیل کے اہم زمین دار تھے۔ سیٹلمنٹ کے وقت احمد خان پتافی اور کوڑا خان جتوئی کا شمار ضلع کے سب سے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ کوڑا خان جتوئی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تقریباً 500 مربع اراضی ضلع کے طلبا کی تعلیم کیلئے وقف کی۔ افسوس کہ بعد میں حرص و ہوس کے پجاریوں نے اس اراضی پر، جو کہ ضلع مظفر گڑھ کی حدود میں واقع ہے ،ناجائز قبضہ کر لیا اور کئی دہائیوں تک نادار اور ضرورت مند طلبا کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔ چند سال ہوئے این جی اوز نے اس اراضی کا مسلہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں اراضی تو واگزار نہیں ہو سکی تاہم اس کی آمدنی کا کچھ حصہ طلبا کی تعلیم پر خرچ کیا جا رہا ہے۔
راجن پور تحصیل میں کلہوڑا فیملی کے علاوہ مہر والا اور کوٹلہ سکھانی کے بزدار کرسی کے حق دار تھے۔ بزداروں کی زمینیں مہرے والا، کوٹلہ سکھانی، کوٹ مٹھن، کوٹلہ نبی شاہ، گجر والی، اور باغون میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کلہوڑہ فیملی کی زمینیں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے حاجی پور میں تھیں۔ رانجھا خان نَہر کو اگرچہ کرسی نہیں ملتی تھی مگر اس کا شمار بھی تحصیل کے معزز لوگوں میں ہوتا تھا۔ راجن پور کے اور بڑے زمینداروں میں مخدوم راجن شاہ کی اولاد شامل تھی جن کے نام پر راجن پور کا نام رکھا گیا تھا۔ ڈسٹرکٹ گزیٹیئر کے مطابق رائے بہادر ہتو رام بھی ریٹائرمنٹ کے بعد راجن پور میں رہتے تھے اور اعزازی مجسٹریٹ تھے۔ انہیں یہاں ایک جاگیر بھی ملی تھی۔ مُرغائی کے گُل شاہ، شکار پور کے سدھو رام، کوٹلہ نصیر کے خیر محمد خان دریشک، اور فاضل پور کے صابو خان دریشک بھی تحصیل کے بڑے زمیندار تھے۔
دوسرے بلوچ قبیلے جن کے تمن نہیں تھے مگر وہ بھی اہمیت کے حامل تھے ان میں احمدانی، چانڈیہ، گوپانگ، گُرمانی اور جتوئی شامل تھے ۔
ڈیرہ غازی خان شہر کی شیخ فیملی بھی اہم مقام کی حامل تھی اور اس کے سربراہ شیخ فیض محمد ایک طویل عرصہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے اور آزادی کے بعد مغربی پنجاب اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ہوئے۔ اسی طرح آخوند فیملی بھی کافی اہمیت کی حامل تھی۔ 1940 کی دہائی کے شہر کے ممتاز افراد میں فیض محمد خان کھوسہ اور شریف خان کھوسہ، فیض احمد خان جسکانی، شیخ سجاد حیدر، ڈاکٹر احمد یار خان قیصرانی، عطا محمد خان بزدار، حاکم خان شامل تھے۔ ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والوں میں بھی ممتاز لوگ شامل تھے، جن میں سرور بودلہ، آغا شیر احمد خاموش اور ان کے بھائی آغا اعجاز اکرم ، شہزادہ سلطان احمد، چوہدری محمد طفیل ایڈووکیٹ، ڈاکٹر ارشاد نوحی ، پاکستان میڈیکل سٹور کے بشیر احمد صاحب اور آفتاب میڈیکل سٹور کےمالک چوہدری بشیر صاحب شامل ہیں۔ راجن پور شہر میں جناب صادق شاہ صاحب بھی ایک معروف شخصیت تھے۔
1970 کی دہائی کے بعد باقی تمام خاندان ضلع اور شہر کی سیاسی اور سماجی قیادت سے دور ہوتے گئے اور بلوچ سرداروں نے ان شعبوں میں اپنا تسلط قائم کر لیا جو ابھی تک جاری ہے۔
(جن اصحاب کے پاس مزید معلومات ہیں براہِ کرم وہ ان کا اضافہ کریں)۔
یہ بھی پڑھیے:

ساجد منصور قیصرانی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: