مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شھر اصفہان ڈیرہ اسماعیل خان ||گلزار احمد

اصفہان کی دلچسپ کہانی جو ہم سے ملتی جلتی ہے آپ زندہ رود کے ساحلوں پر کتاب لے کر پڑھیں جو یونائیٹڈ بک سنٹر ڈیرہ دستیاب ہے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے شاعر کا نام تو یاد نہیں مگر یہ اشعار ہمارے خوبصورت دوست سعد عبداللہ نے میرے ایک انٹرویو کے دوران پڑھے تھے۔اشعار یہ ہیں ؎
کوچہ کوچہ قہوہ خانے میکدے شیراز کے۔
گویا شھر اصفہاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان ۔
رنگ و نغمہ دھاونی کے رنگ میں دیکھے کوئی۔
گویا شھر عاشقاں ہے ڈیرہ اسماعیل خان۔
———————————————-
اس بات کو تین سال گزر گیے جب گزشتہ دنوں ہمارے محترم دوست ریاض انجم صاحب نے سفر نامہ ایران پر کتاب لکھی جس کا ٹائٹل ہے ۔۔
زندہ رود کے ساحلوں پر ۔۔۔
اس کتاب کو پڑھنے سے پتہ چلا کہ دریاۓ زندہ دراصل اصفہان میں بہتا ہے اور اس کے کنارے کی رونقوں سے متاثر ہو کر ریاض انجم صاحب نے یہ ٹائیٹل چنا۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوۓ مجھے ڈیرہ کے سندھ کنارے کی رونقیں یاد آ گئیں۔ گزشتہ رات ڈیرہ میں جم کے ساون برسا مگر اس سے پہلے شدید گرمی تھی اور ڈیرہ وال جگہ جگہ دھاونیاں منا رہے تھے۔آئیے دیکھتے ہیں ہمارا سندھ کنارا کیسے دریاے زندہ اصفہان سے ملتا جلتا ہے۔
دھاونڑی کا مطلب ہے نہانا۔ مگر ڈیرہ میں دوستوں کا اکٹھا ہو کے دریاے سندھ کے کنارے جا کر شغل میلہ کرنا۔ وہیں رل مل کے قسم قسم کے پکوان خود پکانا اور گرمیوں کے شدید موسم میں دریا کے ٹھنڈے پانی میں نہانےکو دھاونڑی کہا جاتا ہے۔ جدید زمانے میں اسے پکنک بھی کہ سکتے ہیں بشرطیکہ کہ دریا کا کنارا ہو ۔ ڈیرہ میں دھاونڑی کی تاریخ اصل میں کئی سو سال پرانی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو ڈیرہ کی ثقافت کا حصہ بنا دیا گیا۔ پارٹیشن سے پہلے دریاے سندھ کے کنارے بالو سیٹھ کا تھلہ دھاونڑی کا مرکز تھا جہاں اتوار کے روز ہندو مسلم سکھ لوگوں کا بہت رش ہوتا ۔اس جگہ کنویں۔باغات۔ ہال۔شیڈ۔بڑے بڑے بوھڑ کے درخت تھے اور اتوار کے روز درجنوں دیگیں پکائی جاتیں اور لوگ دریا کے ٹھنڈے پانی میں نہانے کے بعد طرح طرح کے کھانے کھاتے۔یہاں سنگر میوزک کا پروگرام بھی پیش کرتے۔ ساتھ حسینو کی جھلار پر بھی رونق میلہ ہوتا۔ہمارے بچپن کے زمانے منچلے ڈھول اور شہنائی والا ساتھ لے کر سندھ کنارے جاتے ٹینٹ لگاتے ڈھول کی تھاپ پر دریس ہوتی اور دھاونڑی بھی جاری رہتی۔ پھر ٹیپ ریکارڈرز کے ذریعے نغمے لگا کے جُھمر شروع ہوئی۔ اب دریائے سندھ میں شھروں کا سیوریج ڈال کر اس کو اتنا زیادہ آلودہ کر دیا گیا ہے کہ دریا کے اندر کوئی نہانا پسند نہیں کرتا۔مگر ڈیرہ وال تو پھر ڈیرہ وال ہیں ۔انہوں نے اپنے زمینوں اور گھروں میں بڑے تالاب Swimming pool بنا لیے اور دھاونڑی کی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔آجکل ان تالابوں کے اردگرد اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں اس لیے اب خواتین بھی اپنی فیملی کے ساتھ دھاونڑی میں شرکت کرتی ہیں۔ اصفہان کی دلچسپ کہانی جو ہم سے ملتی جلتی ہے آپ زندہ رود کے ساحلوں پر کتاب لے کر پڑھیں جو یونائیٹڈ بک سنٹر ڈیرہ دستیاب ہے۔

%d bloggers like this: