مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان پالیسی نظرثانی کی متقاضی ہے||حیدر جاوید سید

عصری سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے افغان پالیسی پر اپنے تحفظات بارے ان سطور میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ چین، ایران اور روس بھی تو افغان اسٹوڈنٹ سے مذاکرات کررہے ہیں

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کی اس بات کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہوگا کہ ’’افغان خانہ جنگی کے پاکستان آنے کا خطرہ ہے‘‘
لیکن جس بنیادی بات کو ہمارے پالیسی ساز نظرانداز کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ
کیا افغان اسٹوڈنٹ کی حمایت ہمارے یہاں کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسری عسکری تنظیموں کو سر اٹھانے کا ’’حوصلہ‘‘ نہیں دے گی؟
عصری سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے افغان پالیسی پر اپنے تحفظات بارے ان سطور میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ چین، ایران اور روس بھی تو افغان اسٹوڈنٹ سے مذاکرات کررہے ہیں
محض مذاکرات نہیں حضور یہ تینوں ملک ان کی حمایت بھی کررہے ہیں۔ روس اور چین کو چھوڑیں۔ ایک نگاہ ایرانیوں کی افغان پالیسی پر ڈال کر دیکھ لیجئے۔
انہوں نے 1980ء کی دہائی میں لگ بھگ 30لاکھ افغانوں کو پناہ دی۔ کیا انہوں نے افغان مہاجرین کو اپنے سماج کا حصہ بننے دیا؟ سادہ سا جواب ہے ’’جی نہیں‘‘ انہوں (ایرانیوں) نے افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا۔ ورک پرمٹ دیئے تو اس کے اوقات کار پر سختی کے ساتھ عمل کروایا۔ مہاجرین نہ تو ایران میں جائیدادیں خرید پائے نہ ٹرانسپورٹ مافیا بنے نہ ہی کوئٹہ اور پشاور کے کاروبار پر قبضے کی طرح کا قبضہ کرسکے۔
یہاں ہم نے اسلامی اخوت کی قربان گاہ پر اپنا سماج، امن و استحکام اور معیشت کا جھٹکا کروالیا۔
فقیر راحموں بھی اسے ’’جھٹکا‘‘ ہی قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی فرقہ پرست عسکری تنظیموں نے افغان جہاد کی کوکھ سے جنم لیا۔ 9/11 کے بعد نیا عذاب برپا ہوا۔ ذرا دونوں ادوار میں مرنے والے پاکستانیوں کا حساب تو تقسیم تفریق اور جمع کیجئے۔
چین اور روس اپنے معاشی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اور وہ افغان اسٹوڈنٹ سے معاملات اسی سوچ کے تحت کررہے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کے سامنے ملک اور عوام کے مفادات نہیں ہیں۔ کیا مفادات ہیں یہ سبھی کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغان خانہ جنگی کو پاکستان میں داخل ہونے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟
اس کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ افغان جہادیوں کے ہم خیال مدارس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جہاد کے نام پر پختون علاقوں سے ہورہی بھرتی کو روکا جائے۔ پنجاب اور سندھ کے بعض مدارس سے ملحقہ مساجد میں چندہ جمع کرنے کا نوٹس لیا جائے۔
تلخ حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرنے کی بجائے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ افغان اسٹوڈنٹ کے واری صدقے کیوں ہورہے ہیں اور وائس آف امریکہ نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ کا انٹرویو کیوں نشر کیا؟
معاف کیجئے گا امریکہ کی افغان پالیسی کی لکیر پیٹنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی افغان پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیں۔ عصری شعور اور ملکی مفادات میں ایران، چین اور روس کے ستر ستر ہزار شہری طالبان دہشت گردی سے نہیں مرے نہ ہی انہیں اپنی افغان پالیسی کی وجہ سے تین ساڑھے تین سو ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
میں ملنے والے فوائد اور جہاد کے کاروبار سے حاصل رقم کی بات نہیں کررہا اس کا فیض چند درجن لوگوں تک محدود رہا۔
مسائل اور عذاب اکثریت نے بھگتے اور اب بھی جو عذاب تیزی سے بڑھتے چلے آرہے ہیں یہ بھی عام آدمی کا مقدر ہوں گے۔
کسی اگر مگر کے بغیر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا ننانوے فیصد حصہ جس فہم کی ترویج میں مصروف ہے یہ فہم ہمیں ماضی میں ستر ہزار سے زیادہ لاشیں دے چکی ہے جبکہ اتنے ہی لوگ جہاد کے نام پر افغانستان میں پچھلے 40برسوں کے دوران موت کا رزق بن چکے۔
جناب وزیراعظم!
معاف کیجئے گا امریکہ نے معاملہ نہیں بگاڑا ، ہمیں قطر مذاکرات کے لئے سہولت کاری کرتے وقت اپنے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم سہولت کاری کی شاباشی پر پھولے نہیں سمارہے تھے
اب امریکیوں سے شکوہ یا رونا دھونا غلط ہوگا۔ ہماری افغان پالیسی کتنی کامیاب ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیجئے کہ افغانستان کے سارے فریق ہمیں ہی گالی دے رہے ہیں اور بات بات پر یہ کہتے ہیں سارے فساد کی جڑ پاکستان ہے۔
معاف کیجئے گا یہی بات آپ کے پالیسی سازوں کے لاڈلے افغان اسٹوڈنٹ بھی کہتے ہیں۔ اصولی طور پر ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لئے حقیقت پسندانہ اقدام کرنا ہوں گے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغان پالیسی کو کاروبار بنانے والے طبقات اور افراد دونوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
جناب وزیراعظم افغان اسٹوڈنٹ نہیں پاکستانی ٹی ٹی پی کے لئے ماضی میں آپ کی ہمدردی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کے خلاف آپ کے موقف پر ایک طبقہ ماضی میں آپ کو طالے بان خان کہتا تھا۔
آپ کو یاد ہی ہوگا کہ 2014ء میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اس وقت کی حکومت سے مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی تھی اس میں آپ بھی شامل تھے۔ کیا کسی غیرہم خیال کو کوئی مذاکراتی عمل میں اپنا نمائندہ بناتا ہے؟
وقت گزرگیا آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی افغان پالیسی پر پشتون نواز پالیسی کا ٹھپہ لگا ہوا ہے پہلے تو اس تاثر کو دور کیجئے اگر آپ کے بس میں ہے تو۔
ثانیاً یہ کہ کیا آپ کے علم میں نہیں کہ پشاور سے کوئٹہ تک کے ہسپتالوں میں کن کا علاج ہورہاہے۔
دوسرے پڑوسی کیوں افغان خانہ جنگی کے زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم نہیں کرتے؟
بدقسمتی یہ ہے کہ چالیس سالہ افغان پالیسی سے ہوئی تباہیوں کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ملک صرف مالکوں اور پالیسی سازوں کا نہیں 22کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ افغان پالیسی کے دھندے کا منافع چند درجن لوگ کمائیں اور لاشیں ہمارے بچوں کی اٹھیں؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: