مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فورٹ منرو، وزیراعظم کی توجہ کا طالب!||سارہ شمشاد

سچ تو یہ ہے کہ یہ کوئی ایک عیدالاضحی کی کہانی نہیں ہے کہ فورٹ منرو تفریح کے لئے جانے والوں کو رش کی بنا پر واپس لوٹنا پڑا بلکہ ہر عید پر کچھ اسی قسم کی صورتحال بنتی ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدالاضحی کے موقع پر فورٹ منرو میں بے تحاشا رش نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر مہر ثبت کردی ہے کہ ناکافی سہولیات اور حکومتی عدم توجہگی نہ ہونے کے باوجود فورٹ منرو جیسا پرفضا اور سیاحتی مقام آج بھی غریب عوام کی پہلی دلچسپی اور تفریح ہے۔ ہم کئی مرتبہ حکومت کی توجہ فورٹ منرو کو جدید سہولیات سے آراستہ کرکے ایک اچھی تفریح گاہ بنانے کی طرف دلواچکے ہیں مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس اہم ایشو کی طرف توجہ دینا ضروری ہی نہیں سمجھا لیکن اس کے باوجود جنوبی پنجاب کے غریب لوگ مری کی بجائے فورٹ منرو کو اپنی پہلی ترجیح سمجھتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوکہ حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان جو پاکستان میں ہر وقت نئے سیاحتی مقامات ڈھونڈتے رہتے ہیں اگر تھوڑی سی توجہ فورٹ منرو کی طرف بھی کرلیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اس سیاحتی مقام سے بھی مری کی طرح زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے لیکن فورٹ منرو چونکہ جنوبی پنجاب میں ہے اور اس پسماندہ اور غریب ترین علاقے کی ترقی ہمیشہ ہی ایک خواب رہی ہے جس کی وجہ سے قیام پاکستان کے بعد سے ہی ایک لاوارث علاقہ ہونا ہے اسی لئے تو آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کی تفریح اور سکون بارے سوچنے کے لئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔ آج جب جنوبی پنجاب کے لوگ افلاس، غربت اور حسرتوں کے سمندر میں غوطہ زن ہیں تو وزیراعظم عمران خان جنہیں اس خطے نے اپنے بھرپور تعاون اور مدد سے جتوایا تو اب اس قرض کو اتارنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع میسر آہی نہیں سکتا تھا کہ اس پسماندہ اور محرومیوں کے شکار خطے کی بہتری کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جاتی لیکن چونکہ کسی کو عوام نامی مخلوق سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہے اسی لئے تو جنوبی پنجاب کے عوام کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ میں یہاں وزیراعظم عمران خان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ وہ اپنی چھٹیاں منانے کے لئے ہر مرتبہ نتھیا گلی کیوں جاتے ہیں، فورٹ منرو سمیت دیگر کئی سیاحتی مقامات ان کی توجہ کے طالب ہیں کہ شاید اسی طرح ان بدقسمت علاقوں کی قسمت جاگ جائے اور وہاں کے لوگوں کے لئے کچھ آسانیاں بھی ہوجائیں۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ خان صاحب کا عوام پر احسان عظیم ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ کوئی ایک عیدالاضحی کی کہانی نہیں ہے کہ فورٹ منرو تفریح کے لئے جانے والوں کو رش کی بنا پر واپس لوٹنا پڑا بلکہ ہر عید پر کچھ اسی قسم کی صورتحال بنتی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار جن کا تعلق ڈی جی خان سے ہے، اگر وہ اپنے علاقے کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ کرلیتے تو اس خطے کی قسمت جاگ سکتی تھی مگر یہاں تو جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ ہی ایفا نہیں ہوا کہ اس خطے کے باسیوں کو جنوبی پنجاب اور بہاولپور کا علیحدہ علیحدہ سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر خاموش کروادیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پر ابھی تک کوئی عملی کام بھی شروع نہیں ہوا اور بات ابھی تک زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے۔ میں یہاں اپنے خطے سے ناانصافی اور عدم توجہگی برتنے والے کس کس شخص کا ذکر کروں کہ 2021ء کا وفاقی بجٹ پیش ہونے سے قبل ملتان کے سپوت اور وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حکومت پنجاب پر کچھ ایسے دھاڑے کہ اب لگا کہ بزدار صاحب کی خیر نہیں لیکن شاہ صاحب کو ملتان کے مکین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی عادت ہی نہیں ہے وہ کارکنوں اور ساتھیوں کا لہو گرمانے کے لئے ایسے شغل میلے کئے ر کھتے ہیں تاکہ ان کا ’’باشعور‘‘ ووٹر قابو میں رہے اور یہ سوچنے کی گستاخی بھی نہ کرے کہ بھئی کام تو خود شاہ صاحب کے کرنے کے ہیں وہ تڑیاں، دھمکیاں اور بڑھکیں نجانے کس کو لگارہے ہیں۔
مجھے نہ تو کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کسی سیاستدان سے، مجھے تو بس اپنے خطے اور اپنی دھرتی کی فکر ہے کہ اس کی بہتری اور ترقی کے لئے ہر قدم اٹھایا جائے خاص طور پر اس وقت جب میرا جنوبی پنجاب قیام پاکستان کے بعد سے آج تک محرومیوں اور پسماندگی کا شکار ہی چلا آرہا ہے اس لئے اگر کسی کو پاکستان بالخصوص جنوبی پنجاب سے کوئی دلچسپی نہیں تو مجھے بھی اس سے کوئی سروکار نہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام حکومت سے کوئی بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ دراصل یہی وہ محرومیوں کا لاوا ہے جس کی بنا پر اس خطے کے باسی علیحدہ صوبہ مانگ رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان جو بچے اور کھرے آدمی کی شناخت رکھتے ہیں، پر لازم ہے کہ وہ جنوبی پنجاب کی ترقی و خوشالی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں اور مہینے میں کم از کم دو دن اس خطے میں بھی آکر بیٹھیں تاکہ ان کو اس خطے کے اصل مسائل کا خود اندازہ ہوسکے یہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے اس خطے کو اس قدر نعمتوں سے نوازا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ہمارے نام نہاد نمائندوں کی اپنے خطے سے ’’وابستگی‘‘ کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ ذہنی طور پر اپر پنجاب کے اس قدر غلام ہیں کہ اپنی اگلی نسلوں کو بھی غلام ہی رکھنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان اپنی ہر تقریر میں یہ برملا کہتے ہیں کہ لیڈر ہمیشہ اپنی اگلی نسلوں کے بارے میں سوچتا ہے تو ایسے میں یہ سوچ جنوبی پنجاب کے حوالے سے (وزیراعظم)میں کیونکہ نہیں آرہی۔ ہم کئی مرتبہ چیخ چیخ کر کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم جب بھی اس خطے میں آئیں تو انہیں اس خطے کے دانشوروں سے ضرورملوایا جائے مگر اس کو کیا کہا جائے کہ یہاں بھی استحصالی رویہ عروج پر ہے اور اہم شخصیات سے ملاقات کروانی ہو یا کسی کو نوازنا ہو تو ایک ’’مخصوص لسٹ‘‘ ہر وقت تیار رہتی ہے۔ کئی دہائیوں سے انہی لوگوں کو وزیراعظم یا دیگر بڑے عہدوں پر فائز لوگوں تک رسائی دی جاتی ہے تاکہ کوئی گستاخی نہ ہوسکے اور سب کی نوکریاں بھی پکی رہیں۔ درحقیقت یہ ایک غلامانہ طرزعمل ہے کہ ہمارے ہاں آگے بڑھنے کی بجائے ماضی کی روش ہی اپنائی جاتی ہے۔ آج بھی پڑھے لکھے اور غیرجانبدار اپنے خطے سے صحیح معنوں میں وابستگی رکھنے والوں کو اچھوت سمجھ کر نظرانداز کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جاتا ہے اسی لئے تو آج حکام بالا تک اصل مسائل پہنچ ہی نہیں پاتے۔ بات شروع فورٹ منرو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت سے شروع ہوئی تھی اور نکل کہیں اور ہوگئی۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ اگر جنوبی پنجاب کے سیاحتی اور کثیر زرمبادلہ فراہم کرنے والے مقامات کی فہرست مرتب کی جائے تو جنوبی پنجاب کی بہت سی ایسی چیزیں اور تحفے ہیں جو اسے کمائو پوت بناسکتی ہیں لیکن اس کے لئے ایک نظرکرم ادھر بھی والا معاملہ ہونا چاہیے جس کے لئے ہم وزیراعظم عمران خان سے یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہیں تاکہ اس خطے کی ترقی کا حقیقی سفر شروع ہوسکے مگر نجانے کیوں فورٹ منرو کو مری کی طرح سیاحتی مقام بنانے میں نجانے کون سی مجبوریاں ہمیشہ آڑے آجاتی ہیں۔یہ سوال مجھ سمیت جنوبی پنجاب کے باشعور عوام کو کسی طور عرصہ دراز سے سمجھ نہیں آرہا۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: