اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ۔ کچھ تلخ و شیریں(18)||حیدر جاوید سید

"تقریباً " یہ بات درست ہے کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف کو قطر کے وزیر خارجہ کے کہنے پر افغان صدر کے مشیر قومی سلامتی محب اللہ سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تقریباً ” یہ بات درست ہے کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم اور (ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف کو قطر کے وزیر خارجہ کے کہنے پر افغان صدر کے مشیر قومی سلامتی محب اللہ سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی۔
وہ ایسا کرکے محب اللہ کے ایک گھٹیا بیان پر احتجاج ریکارڈ کرواسکتے تھے لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ قطری حکام کو انکار نہیں کرپائے اور اب وہ انصافیوں سمیت عظیم محب وطنوں کی توپوں کی زد میں ہیں۔
اصولی طور پر کسی ملک کے سابق حکمران شخصیات سے کسی دوسرے ملک کی ذمہ دار شخصیتوں کی ملاقاتوں پر کوئی آئینی و قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ جیسی ریاست کا صدر نہ صرف سابق صدور سے مشاورت کرتا رہتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ کسی سابق صدر کو ریاست کے خصوصی ایلچی کے طور پر بعض امور میں معاونت کے لئے بھی آمادہ کرتا ہے اور سابق صدر بھی خوشی کے ساتھ کردار ادا کرتے ہیں۔
تیسری دنیا کا مزاج مختلف ہے۔ یہاں حاضر سروس ” منتخب” قائدین حب الوطنی کے کوہ ہمالیہ پر جلوہ افروز ہوتے ہیں ان کے مخالفین اور خصوصاً سابق حکمران غدار، چور، لٹیرے اور وہ سب کچھ قرار پاتے ہیں جو حرف جوڑ کر لکھا نہیں جاسکتا۔
پاکستانی سیاست بلکہ آبپارویوں کی حب الوطنی کا عمومی مزاج یہی ہے۔
مکرر عرض ہے کہ میاں نوازشریف افغان مشیر قومی سلامتی سے ملاقات نہ کرتے تو اچھا تھا لیکن ملاقات سے بھی کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی ثانیاً یہ کہ حب الوطنی اب اگر علی امین گنڈاپور، فواد چودھری یا آپا فردوس عاشق اعوان نے سمجھانی اور اس کی تفسیر بیان کرنی ہے تو سورۃ فاتحہ کی تلاوت غیرضروری ہوگی۔
افغانستان میں پچھلے چند دنوں سے جنگجووں کی فتوحات رکی ہوئی ہیں یا پاکستانی ذرائع ابلاغ کو خبروں کے ’’فیڈر‘‘ فراہم کرنے والے قربانی کا گوشت لوٹنے میں مصروف ہیں ؟’ یہ سوال اہم ہے لیکن اس دوران امریکی طیاروں نے طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔
بعض ذرائع کہتے ہیں کہ بمباری لگ بھگ تین بار ہوئی اور اس سے طالبان کو شدید نقصان پہنچا۔ عید قربان کے دنوں میں طالبان نے نیا دعویٰ کیا کہ ہم 90فیصد افغانستان پر قابض ہیں۔
یہ دعویٰ حقیقت ہے تو پھر پیچھے کابل ہی رہ گیا وہ بھی عید والے دن داعش کے راکٹوں کی زد میں تھا۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے پاکستانی صارفین نے 2افغان رہنماوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اولاً قومی سلامتی کے مشیر محب اللہ کو اور ثانیاً افغان نائب صدر امراللہ صالح کو جنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کے وقت کی ایک تصویر اپنے ٹیوٹر اکائونٹ پر شیئر کرتے ہوئے کہا
’’افغانوں کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں‘‘۔
امراللہ صالح غیر پشتون افغان ہیں پاکستان سے ان کی ناراضگی کی ایک وجہ وہی ہے جو اکثر غیرپشتون افغانوں کی ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنے سرحدی علاقوں میں آباد پشتونوں کی وجہ سے افغانستان میں پشتون دھڑوں کی سرپرستی کرتا ہے دوسری وجہ اشرف غنی حکومت کی نئی حکمت عملی ہے کہ حقیقی مسائل اور دیگر امور پر بات کرنے کی بجائے تنقید کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف ہی رکھا جائے۔
افغان تاریخ میں کب کون سا لمحہ اچھا یا برا یا یوں کہہ لیجئے شرمندگی سے عبارت تھا یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر بحث اور سوال اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن فی الوقت یہ بحث غیرضروری ہوگی۔
ورنہ یہ تو تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر پر حملہ آور ہوئے افغان لشکروں کے سپہ سالاران 13اگست 1947ء تک انڈس ویلی کی غیر پشتون اقوام کے لئے ولن تھے مگر 14اگست 1947ء کے بعد وہ ہیرو قرار پاگئے کیونکہ بٹوارے میں ہوئی نقل مکانی کے مسلم حصہ کا اپنا مقامی ہیرو نہیں تھا ان کی گزرگزران مسلم حملہ آوروں کو ہیرو بناکر پیش کرنے میں ہی تھی
ورنہ یہاں تو مرشدی بلھے شاہؒ کہہ اٹھے تھے کہ
’’جو کھا پی لیا وہی تمہارا تھا باقی تو احمد شاہ (احمد شاہ ابدالی) کا ہے‘‘۔
چلیں تاریخ کی بھول بھلیوں سے واپس حال میں پلٹتے ہیں۔ طالبان کا 90فیصد افغانستان پر دعویٰ صریحاً غلط ہے البتہ جن تین سرحدی مقامات پر وہ قابض ہیں ان میں سے دو مقامات پاکستان بلوچستان سے ملحقہ اور ازبکستان سے ملحقہ ہیں جہاں پر پچھلے پندرہ دنوں سے سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ جاری ہے۔ ایرانی سرحد سے ملحقہ ایک چوکی کے علاقے میں ہلکی پھلکی کشیدگی موجود ہے۔
بعض ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ان سرحدی مقامات پر جنگجووں کو قبضے کے لئے پڑوسیوں کا تعاون حاصل تھا۔
پڑوسی اس کی تردید کررہے ہیں لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ ملحقہ سرحدی علاقوں سے چند میل آگے تو سکیورٹی فورسز کی عملداری ہے پھر بعض سرحدی مقامات طالبان کے قبضے میں کیسے آئے؟
یہ ڈیڑھ ملین ڈالر کا سوال ہرگز نہیں، عام فہم سادہ لفظوں میں دیوار پر لکھی وہ حقیقت ہے جو ہم پڑھنا نہیں چاہتے۔
افغان منظرنامے کے حوالے سے اب تک ان سطور میں جو عرض کرتا آرہا ہوں وہ کسی کی ضد یا نفرت سے عبارت نہیں۔ اخبار نویس کے طور پر اپنے ذرائع سے دستیاب معلومات کے ساتھ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے دوغلے پن اور بعض کے منفی کردار کو پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا ہے۔
البتہ اس حوالے سے میری رائے اب بھی یہی ہے کہ ہمیں افغان امور میں اس طور گردن پھنسانے سے اجتناب کرناچاہیے جس کی وجہ سے ہمارے یہاں شدت پسندی کی نئی لہر کا راستہ ہموار ہو ثانیاً یہ کہ پاکستانی پشتون علاقوں سے افغان طالبان کو افرادی قوت کی فراہمی یا طالبان کے ہم خیال مدارس سے ان کے لئے معاونت دونوں غلط ہیں۔
پچھلے ایک ہفتہ کے دوران افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پشتون علاقوں میں دو درجن سے زیادہ نعشیں آئیں اور جنازے ہوئے۔ حیران کن طور پر اس بار جے یو آئی (ف) کے بعض علاقائی طور پر سرکردہ رہنماوں کے عزیزواقارب افغان جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔
یہ صورتحال تشویش کا باعث ہے۔
اصولی طور پر دو طرفہ غیرقانونی آمدورفت کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ماضی میں اس طرح کی ڈھل مل والی پالیسی سے شدید نقصان اٹھاچکے ہیں۔ افغانوں کو اپنے نظام حکومت اور قیادت کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ ہماری ریاست اور مختلف دھڑوں کو کسی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ عدم گریز کی صورت میں ہمارے یہاں ماضی جیسی صورتحال بن سکتی ہے جو کہ کسی بھی طرح ہمارے مفاد میں نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: