اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپرکرنسی سے تباہی ۔۔۔||گلزار احمد

تب سونے کی قیمت پندرہ روپے فی تولہ تھی۔ایک روپے کو آٹھ۔چار اور سولہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔اٹھنی۔چونی۔دو آنہ۔اور آنہ۔ ایک روپے کے سولہ آنے تھے۔تانبے میں ٹَکہ بڑا سکہ تھا جو دو پیسے کا تھا۔ایک پیسے کے دو دھیلے ۔چار کسیرے۔آٹھ دمڑیاں بنتی تھیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کو پیپر کرنسی نے تباہ کر دیا ہے۔ پہلے سکے سونے ۔ چاندی اور تانبے سے بنتے تھے اور انکی قدر میں کمی نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر چالاک لوگوں نے کرنسی چھاپ کر اس کے پیچھے لگا دیا گویا کوئ شخص یا حکومت جتنے نوٹ چھاپ دے کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔پھر دنیا کا خون چوسنے والوں نے بنک بناے جہاں عوام کا پیسہ ساہوکار جمع کر کے خوب کماتے ہیں۔ پھر دور آیا کہ ملکوں کی کرنسی کو ڈالر سے منسلک کر کے برباد کیا گیا ۔ڈالر والے جب چاہتے ہیں ڈالر کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کی کرنسی برباد ہوتی رہتی ہے۔
May be an image of money and text
علم سے محروم کمزور قومیں اس طرح غلامی کی چکی میں پستی رہتی ہیں۔ آئیے 120 سال پہلے جب ڈیرہ میں سکے رائج تھے کیا ہو رہا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں 1901ء میں انگریزوں کی حکومت تھی اور سِکے تین دھاتوں۔۔سونے۔چاندی اور تانبے سے بنتے تھے۔سب سے قیمتی برطانوی پونڈ ایک تولہ سونے کا پندرہ روپے میں ملتا تھا کیونکہ
تب سونے کی قیمت پندرہ روپے فی تولہ تھی۔ایک روپے کو آٹھ۔چار اور سولہ حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔اٹھنی۔چونی۔دو آنہ۔اور آنہ۔ ایک روپے کے سولہ آنے تھے۔تانبے میں ٹَکہ بڑا سکہ تھا جو دو پیسے کا تھا۔ایک پیسے کے دو دھیلے ۔چار کسیرے۔آٹھ دمڑیاں بنتی تھیں۔
آج اگر میرا روپیہ ایک تولہ سونے کا بنا ہوتا تو اس کی قیمت کوئ کیسے کم کر سکتا؟ مگر اب آپ اپنی حالت دیکھیں۔

گاٶں کی خواتین کے پرانے کیمیوٹی سنٹرز ۔

جدید کیمیونٹی سنٹر کا آڈیا Idea آنے سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں عملی طور پر یہ سنٹر ہماری بستیوں میں کام کر رہے تھے۔
ماضی میں ہر گھر میں ہینڈ واٹر پمپ نہیں تھے۔یا کھوئیاں تھیں جس کے پنگھٹ پر صبح عورتیں جمع ہوتیں اور ڈول سے پانی نکال کے گھڑے بھر لیتیں۔یا گاٶں کا کنواں تھا جو بیل چلاتے اور اس سے سارے گاٶں کی عورتیں پانی بھر لاتیں۔اس جگہ درخت لگے ہوتے جن کی چھاٶں میں بیٹھ کر گھنٹوں عورتیں آپس میں ڈسکشن کرتیں۔کپڑوں کے فیشن۔جوتیوں کے ڈیزائین۔زیورات اور چوڑیاں اور پتہ نہیں کیا کچھ ڈسکس ہوتا۔بڑی عمر کی عورتیں پنگھٹ پر اپنے بیٹوں کے لیے لڑکیوں کے رشتے چپکے چپکے سیلیکٹ کرتیں۔ گاٶں کی لڑکیوں کی آپس کی دوستیاں یہی پروان چڑھتیں۔تحائف کے تبادلے جیسے رومال۔چھلے ۔ونگاں بھی یہیں ہوتے۔البتہ دامان اور پہاڑی علاقے کی عورتیں تین چار میل دور جا کر کسی تالاب یا چشمے سے پانی بھر لاتیں۔
دوسرا اہم سنٹر تنور تھا۔تین چار گھروں کی عورتیں ایک تنور سے روٹیاں پکا لیتیں اور گپ شپ بھی جاری رہتی۔تنور کے اندر بینگن بھون کر جو بھرتہ بنتا وہ انٹر کانٹینینٹل کلاس کا تھا۔ ہماری گاٶں کی بعض عورتیں تنور خود بناتیں۔ ہم تین چار لڑکے دریا کی چیکڑی مٹی river silt گٹکوں میں بھر کر لاتے اس کو کوٹا جاتا پھر اس مٹی میں سینڑھی۔۔پٹ سن۔ کوٹ کوٹ کر شامل کرتے مٹی کو گیلا کر کے ایک وار دیتے جب وہ سوکھ جاتا دوسرا۔ تیسرا اور چوتھا اس طرح تنور تیار ہو جاتا۔ پھر مقررہ جگہ رکھ کے چاروں طرف دیوار دیتے اور بیچ میں ریت بھر دیتے۔
May be an image of 1 person and standing

%d bloggers like this: